لاہور ( رپورٹنگ آن لائن))پنجاب یونیورسٹی کالج آف آرٹ اینڈ ڈیزائن کے زیر اہتمام انامولکا ایوارڈز 2023کیلئے تقریب تقسیم انعامات، فن پاروں کی نمائش اورضرار بابری کی کتاب ‘انا مولکا، ایک آرٹسٹ، ایک ماہر تعلیم اور فن نقاد’ کی رونمائی کا انعقاد کیا گیا ۔
اس موقع پر وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود، کالج آف آرٹ اینڈ ڈیزائن کی پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر سمیرا جواد، فیکلٹی ممبران اور طلبائوطالبات نے شرکت کی۔ نمائش کی کیوریٹر سنبل نتالیہ نے کہا کہ ‘اس سال کے ایوارڈ کے لیے ہمیں گلگت بلتستان سمیت پورے پاکستان سے 160 سے زائد انٹریز موصول ہوئیںجن میں 20تا40 سال کے زمرے کے لیے 50 اور 40 سے اوپر کے لیے 12سے زائد کو شارٹ لسٹ کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ رواں برس 40 سے اوپر کی کیٹیگری میں مغیث ریاض فاتح رہے جبکہ دیگر میں عطیہ شوکت، بشیر حیدر، رابعہ عاصم، ڈاکٹر ثمینہ ظہیر اور نیئر شہزاد کے نام قابل ذکر ہیں۔ مغیث ریاض کے ایوارڈ یافتہ آرٹ ورک میں ایک بھینس کو دکھایا گیا تھا ۔ اسی طرح بلوچستان سے تعلق رکھنے والی سعدیہ راٹھور نے 20تا40کیٹیگری میں ایوارڈ حاصل کیاجن کے کینوس آرٹ ورک کاعنوان ‘ بیخابیاں، افسانے، مہتاب، تمنا’تھا۔ جبکہ 25 سے اوپر کی کیٹیگری میں آصف کاسی، فہد طارق، ایمن جلیل، ماہنور حسن خان اور حفصہ منیر کے نام شامل ہیں۔
جیتنے والوں کا انتخاب کرنے والے چار ججز آمنہ پٹودی، جمیل بلوچ، عظمیٰ وقار اور آمنہ جمال تھے۔وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے جیتنے والے فنکاروںمیں ایوارڈز تقسیم کئے۔اپنے خطاب میں ڈاکٹر خالد محمود نے کہا کہ فنکاروں میں منفرد صلاحیتیں ہیں اور انا مولکا کو بھی اس شعبے میں ان کی خدمات کے لیے یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ فن کے ذریعے مخصوص جذبات کا اظہار کرنا بہت مشکل ہے اور مخصوص صلاحیتوں کی وجہ سے فنکار اپنے فن کے ذریعے سماجی اور ثقافتی اقدار کی عکاسی کرتے ہیں۔
ڈاکٹر سمیرا جواد نے کالج کے پس منظر اور اس کی بنیاد رکھنے اور پھر اسے کامیاب بنانے میں انا مولکا احمد کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کالج کی بنیاد 1940 میں رکھی گئی تھی جب انا مولکا ایک نوجوان خاتون تھیں ۔ انہوں نے کہا کہ 1947 میں صرف دو طالب علم رہ گئے تھے کیونکہ تمام ہندو اور سکھ طلباء ہندوستان ہجرت کر گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ انا مولکا چاہتی تھیں کہ کالج میں یہ فن اردو میں پڑھایا جائے، اسی لیے بابری کی کتاب بھی دولسانی تھی۔ ڈاکٹر اعجاز انورنے کہا کہ انا مولکا احمد کا سب سے بڑا تعاون حکومتی ادارے میں فائن آرٹ انسٹی ٹیوٹ کھولنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ گورنمنٹ کالج لاہور(موجودہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی )میں اصغر منہاس فائن آرٹس کے پہلے طالب علم تھے۔ اصغر منہاس کو گورنمنٹ کالج میں بطور لیکچرر رکھا گیا تھا جنہوں نے کبھی ترقی کا مطالبہ نہیں کیااور بطور لیکچرر ہی ریٹائرڈ ہوگئے۔ اصغر منہاس کو چھ ماہ کے لیے نوکری پر رکھا گیا تھا لیکن اگلے چھ سال تک انہیں تنخواہ نہ ملی۔انہوں نے بتایا کہ مس مولکا احمد نے اصغر منہاس کو کہا تھا کہ وہ ملازمت نہ چھوڑیں کیونکہ ان کے بعد جی سی یو میں فائن آرٹس کا شعبہ ختم ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بہت کم فنکار تھے جو مجسمہ ساز بھی تھے اور مصور بھی اور انا مولکا احمد ان میں سے ایک تھیں۔ اس موقع پر شاہنواز زیدی، ضرار بابری اور دیگر نے خطاب کیا۔