انسانی نعشوں

پنجاب میں سرکاری سطح پر انسانی نعشوں کے گھناؤنا کاروبار کا انکشاف

شہباز اکمل جندران۔۔۔

لاہور سمیت صوبے میں انسانی نعشیں بکنے لگیں۔جبکہ انسانی نعشوں کی سپلائی اور خریدوفروخت میں سرکاری ادارے بھی ملوث پائے گئے ہیں۔
انسانی نعشوں
البتہ نعشوں کے لین دین میں ملوث سرکاری ادارے ایک دوسرے پر تحریری الزام عائد کرنے لگے ہیں۔

زرائع کے مطابق صوبے میں ایم بی بی ایس کے پہلے اور دوسرے سال کے طلبہ کے لئے انسانی نعشوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ایم بی بی ایس کے طلبہ انسانی نعشوں پر پریکٹیکلز اور تجربات کرتے ہیں۔
انسانی نعشوں
کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی لاہور کی ایچ او ڈی اناٹومی کا کہنا ہے کہ طلبہ کے اناٹومی ڈیپارٹمنٹ کو انسانی نعشوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ جو کہ پولیس مہیا کرتی ہے اور گزشتہ دو برسوں میں 15 انسانی نعشیں پولیس نے فراہم کیں۔
انسانی نعشوں
ان کا مزید کہنا تھا کہ دو برسوں میں چار نعشیں پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کو فراہم کیں۔

انسانی نعشوں
دوسری طرف لاہور پولیس نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے شعبہ انٹومی کینسربراہ کے اس دعوے کو جھٹلاتے ہوئے تحریری طورپر موقف اختیار کیا یے کہ انسانی نعشوں کو میڈیکل کالجوں یا یونیورسیٹیوں کے حوالے کرنے کا قانون نہیں ہے۔اور نہ ہی لاہور پولیس نے گزشتہ دو برسوں کے دوران کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی سمیت کسی بھی سرکاری یاپرائیویٹ یونیورسٹی اور میڈیکل کالج کو انسانی نعش فراہم کی ہے۔

ادھر علامہ اقبال میڈیکل کالج لاہور کے ایڈمنسٹریٹر کا کہنا ہے کہ پولیس اور مینٹل ہسپتال کا میڈیکل سپرنٹنڈنٹ انسانی نعشیں فراہم کرتے ہیں۔
انسانی نعشوں
تاہم ایم ایس مینٹل ہسپتال لاہور کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران علامہ اقبال میڈیکل کالج سمیت کسی بھی کالج یا یونیورسٹی کو انسانی نعش فراہم نہیں کی۔
انسانی نعشوں
انسانی نعشوں کی فراہمی کے متعلق سرکاری اداروں کے تحریری موقف نے ابہام پیدا کر دیا۔اورانسانی نعشوں کی خریدو فروخت کا گھناؤنا کاروبار صوبے میں چمکنے لگا ہے

جبکہ گھناونے کاروبار میں ملوث افراد ابہام سے فائدہ اٹھانے لگے ہیں۔اور صوبے میں انسانی نعشوں کا کاروبار عام ہوگیا۔

زرائع کے مطابق صوبے میں پرائیویٹ میڈیکل کالج پانچ لاکھ روپے تک انسانی نعشیں خریدنے لگے۔

اور سب سے زیادہ فروخت لاوارث اور ناقابل شناخت انسانی نعشوں کی ہوتی ہے۔