پنجاب میں سرکاری سطح پر انسانی نعشوں کا کاروبار لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج

شہباز اکمل جندران۔

لاہور ہائی کورٹ میں انسانی نعشوں کی بے حرمتی کے خلاف رٹ پٹیشن فائل کردی گئی۔
پٹیشن ایڈووکیٹ شہباز اکمل جندران کی طرف سے ایڈووکیٹ ندیم سرور کے توسط سےفائل کی گئی۔
لاہور ہائی کورٹ
عدالت نے معاملے کو انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے درخواست گزار کو سراہا۔عدالت نے قرار دیا کہ کسی کو انسانی نعشوں کی بے حرمتی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
انسانی نعشوں

درخواست گزار نے عدالت کےروبرو موقف اختیار کیا کہ لاہور سمیت صوبے میں انسانی نعشیں بکنے لگیں ہیں۔جبکہ انسانی نعشوں کی سپلائی اور خریدوفروخت میں سرکاری ادارے بھی ملوث پائے گئے ہیں۔
سپلائی
درخواست گزار کاکہنا تھا کہ نعشوں کے لین دین میں ملوث سرکاری ادارے ایک دوسرے پر تحریری الزام عائد کرنے لگے ہیں۔

درخواست گزار کے مطابق صوبے میں ایم بی بی ایس کے پہلے اور دوسرے سال کے طلبہ کے لئے انسانی نعشوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ایم بی بی ایس کے طلبہ انسانی نعشوں پر پریکٹیکلز اور تجربات کرتے ہیں۔
 تجربات
اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی لاہور کی ایچ او ڈی اناٹومی کا کہنا ہے کہ طلبہ کے اناٹومی ڈیپارٹمنٹ کو انسانی نعشوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ جو کہ پولیس مہیا کرتی ہے اور گزشتہ دو برسوں میں 15 انسانی نعشیں پولیس نے فراہم کی گئی ہیں۔
اناٹومی ڈیپارٹمنٹ
درخواست گزار کا موقف تھا کہ دو برسوں میں چار نعشیں پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کو فراہم کی گئی ہیں جبکہ لاہور پولیس نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے شعبہ انٹومی کینسربراہ کے اس دعوے کو جھٹلاتے ہوئے تحریری طورپر موقف اختیار کیا یے کہ انسانی نعشوں کو میڈیکل کالجوں یا یونیورسیٹیوں کے حوالے کرنے کا قانون نہیں ہے۔اور نہ ہی لاہور پولیس نے گزشتہ دو برسوں کے دوران کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی سمیت کسی بھی سرکاری یاپرائیویٹ یونیورسٹی اور میڈیکل کالج کو انسانی نعش فراہم کی ہے۔
انسانی نعشوں
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ علامہ اقبال میڈیکل کالج لاہور کے ایڈمنسٹریٹر کا کہنا ہے کہ پولیس اور مینٹل ہسپتال کا میڈیکل سپرنٹنڈنٹ انسانی نعشیں فراہم کرتے ہیں۔
انسانی نعشوں
تاہم ایم ایس مینٹل ہسپتال لاہور کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران علامہ اقبال میڈیکل کالج سمیت کسی بھی کالج یا یونیورسٹی کو انسانی نعش فراہم نہیں کی۔

انسانی نعشوں کی فراہمی کے متعلق سرکاری اداروں کے تحریری موقف نے ابہام پیدا کر دیا۔اورانسانی نعشوں کی خریدو فروخت کا گھناؤنا کاروبار صوبے میں چمکنے لگا ہے
انسانی نعشوں
جبکہ گھناونے کاروبار میں ملوث افراد ابہام سے فائدہ اٹھانے لگے ہیں۔اور صوبے میں انسانی نعشوں کا کاروبار عام ہوگیا۔

زرائع کے مطابق صوبے میں پرائیویٹ میڈیکل کالج پانچ لاکھ روپے تک انسانی نعشیں خریدنے لگے۔
انسانی نعش
اور سب سے زیادہ فروخت لاوارث اور ناقابل شناخت انسانی نعشوں کی ہوتی ہے۔

عدالت عالیہ نے آئیندہ سماعت پر صوبائی سیکرٹری صحت اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے شعبہ اناٹومی کے سربراہ کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا ہے