اسلام آ باد (رپورٹنگ آن لائن ) وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے کہا ہے کہ پاکستان سے زیادہ کسی دوسرے ملک کو افغانستان میں قیام امن کی ضرورت نہیں ہے، پاکستان پر انگلیاں اٹھانا چھوڑ دیں، ناکامیاں افغانستان کے اندر ہیں،ہمیں گن کلچر پڑوس سے ملا ہے، افغان پناہ گزینوں کا بوجھ اٹھا رہے ہیں، اتنی قربانیاں دے کر بھی پاکستان سے کہا جا رہا ہے کہ ڈو مور یہ بدقسمتی ہے، دوبارہ اس سب کے متحمل نہیں ہو سکتے، صرف چاہتے ہیں کہ افغان مسئلہ کا سیاسی حل تلاش کیا جائے، چاہتے ہیں افغان خود اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں۔
جرمن میڈیا کو انٹرویو کے دوران طالبان پر اثر و رسوخ سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں معید یوسف نے کہا کہ یہاں پر اثر و رسوخ کے لفظ کا استعمال غلط ہے۔ کسی کو بھی کہنا کہ طالبان کو کسی تصفیے کے لیے تیار کرے احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ زمینی حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ طالبان افغانستان کے آدھے سے زیادہ رقبے پر کنٹرول حاصل کر چکے ہیں۔ وہ ہر روز ایک نا ایک ضلعے پر قبضہ کر رہے ہیں۔ وہ اس طرح نقل و حرکت کر رہے ہیں جیسے کے وہ جنگ کے میدان میں ہوں۔
انہوں نے کہا کہ طالبان ہوں، اشرف غنی یا دیگر سیاسی قوتیں، انہیں کسی تصفیے یا نتیجہ خیز عمل تک پہنچا کر کون فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ کیا اس بارے میں کوئی شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں کہ افغان حکومت کو ایک ایک پائی امریکا، یورپ اور بین الاقوامی برادری سے ملتی ہے؟ ان کا افغان حکومت پر کتنا کنٹرول ہے۔ کیا یہ سیاسی قوتیں انہیں افغانستان میں ایک فعال حکومت بنانے یا بدعنوانی کے بارے میں بات چیت کرنے کے لیے قائل کر سکیں؟۔مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ امریکا نے انخلا کا فیصلہ کیا اسے اچھی طرح پتہ تھا کہ ملک میں جہاں وہ 20 سال سے زیادہ موجود رہا ہے، وہاں سے اس کے نکلنے کے بعد یہ ملک کتنا غیر مستحکم ہو گا اور طالبان پیش قدمی کریں گے۔
اب پاکستان کی طرف رخ کرنا اور ہمیں کہنا کہ کچھ کریں۔ جس وقت افغانستان میں ڈیڑھ لاکھ غیر ملکی فوجی تعینات تھے، اس وقت پاکستان کہہ رہا تھا کہ افغانستان کے لیے سیاسی حل تلاش کیا جائے۔ تب کسی نے اس کی نا سنی۔ اب ان ناکامیوں پر توجہ مرکوز کریں۔ انہوں نے کہا ہمیں گن کلچر پڑوس سے ملا ہے، افغان پناہ گزینوں کا بوجھ اٹھا رہے ہیں، اتنی قربانیاں دے کر بھی پاکستان سے کہا جا رہا ہے کہ ڈو مور یہ بدقسمتی ہے، دوبارہ اس سب کے متحمل نہیں ہو سکتے، صرف چاہتے ہیں کہ افغان مسئلہ کا سیاسی حل تلاش کیا جائے، چاہتے ہیں افغان خود اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں۔