پاکستان

پاکستان پانی کی شدید بحران کا شکار اور حکومتوں کی مجرمانہ غفلت

تحریر۔۔۔۔شہزاد بھٹہ

پانی رنگ بکھیرتی زندگی ۔زراعت ۔صنعت اور معیشت کے تمام شعبوں کا ضامن ھے بلکہ زندگی کا دارومدار ھی پانی کے مرینون منت ھے جہاں پانی ھوتا ھے وھاں زندگی شروع ھوتی ھے پاکستان دنیا کا واحد ملک ھے جس کو قدرت نے پانچ موسموں سردی گرمی بہار خزاں اور برسات سے نوازا ھوا ھے گرمی کا موسم شروع ھوگیا گرمی کی شدت سے پہاڑوں پر پڑی برف بھی کچھ عرصے بعد پگھنا شروع ھو جائے گئی اور دریاوں میں پانی انا شروع ھو جائے گا ھر سال بارشوں سے تقربیا 145 ملین ایکڑ فٹ پانی اتا ھے پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی سہولیات نہ ھونے کی وجہ سے صرف 13.4 ملین ایکڑ فٹ پانی بچایا جاسکتا ھے۔
برف پگھنے اور بارشوں سے دریاوں میں سیلاب ائے گا مگر ھمارے دریا اس قابل نہیں کہ وہ اس پانی کو برداشت کر سکیں کیونکہ ھم نے 72 سال میں برساتی پانی کو ذخیرہ کرنے کی طرف توجہ ھی نہیں دی ھماری حکومتیں غیر ضروری معاملات میں ھی مصروف رہتی ھیں اربوں کروڑوں روپے ھر سال مختلف منصوبوں پر صرف کر دیئے جاتے ھیں مگر پانی جیسی نعمت کو محفوظ کرنے کی طرف کسی نے توجہ نہ دی ۔ ھمارے دریائے شتر بے مہار کی طرح ھیں ھم نے دریاوں کے کناروں پر بند نہیں بنائے نہ ھی ان دریاروں کو گہرے کیا جس سے یہ دریائے تھوڑا سا بھی پانی بھی برداشت نہیں کرتے جس سے سیلابی پانی کھتیوں اور آبادیوں میں آجاتا ھے اور تباھی مچا کر چلا جاتا ھے.
میرے خیال میں ھمارے پالیسی میکر اور حکمرانوں کے نزدیک یہ مسئلہ ھے ھی نہیں. پاکستانی حکومت نے 1960 میں پنجاب کے تین دریا ستلج بیاس اور راوی ہندوستان کو بیچ دیئے جس نے ان دریاوں پر ڈیم بنا کر پانی کو وسیع پیمانوں پر ذخیرہ کرکے اس کو اپنے بنجر علاقوں کو اباد کر لیا اور ستلج بیاس اور راوی کا پانی بند ھونے سے پاکستان کو پانی کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑ رھا ھے اب ان تینوں دریاوں میں پانی تب اتا ھے جب انڈیا کے علاقے میں زیادہ بارشیں ھوتی ھے یا پھر سیلاب اتا ھے انڈیا کسی وقت بھی پاکستان کے خلاف پانی بم استعمال کر سکتا ھے جس کا عملی نمونہ بھارت نے 1988 اور بعد میں کرچکا ھے جب اس نے راوی میں پانی چھوڑا تھا جس سے بے پناہ تباھی ھوئی تھی انڈیا نے پاکستان کے حصے میں انے والے دریاوں چناب جہلم پر بھی سندھ طاس معاہدہ کی خلاف وردی کرتے ھوئے ڈیم بنا کر ان کا پانی روک لیا ھے اور پاکستانی حکومتیں سوتی رہ گئی
پانی خدا تعالی کی وہ انمول نعمت ھے جس کے بغیر زندگی کا تصور ناممکن ھے پاکستان دنیا میں تیسرے نمبر پر آچکا ھے جس کوا یرٹیریا اور بوٹسوانا کے ساتھ ساتھ انتہائی شدید پانی کی کمی کا سامنا ھے۔ایک سروے کے مطابق پاکستان کی 85 فیصد شہری ابادی صاف پانی سے محروم ھے جبکہ دیہات میں بسنے والی 82 فصید ابادی کو صاف پانی دستیاب نہیں ھے
ھماری بد قسمتی ھے کہ ھم آج کا سوچتے ہیں کل کیا ھو گا اللہ جانے .اللہ نے ہمیں عقل دی سوچ دی ذہن دیا اور پورے جنت نظیر خطہ پاکستان دیا مگر ھم اس جنت کو سنبھال نہ سکے پانی انسان کی بنیادی ضرورت ھے اس کے بغیر گزارہ نہ ممکن ھے .
قدرت نے پنجاب کو پانچ دریا دیئے مگر ھماری نااہلیوں سے یہ گندے نالے بن گئے یا ریت سپلائی کرنے والے ڈپو
ھمارے دریا سال بھر پانی کے بغیر صرف دو مہینے برسات کے بارشوں کا پانی اتاھے اور تباھی مچا کر چلا جاتا ھے۔راوی دریا خشک ھونے لاھور میں زیر زمین میٹھے پانی کی سطح خطرناک حد گر چکی ھے 2003 میں یہ سطح 300 سے 400 فٹ تھی جو اج تقربیا 1400 فٹ تک پہنچ چکی ھے
ایک رپورٹ کے پاکستان واحد ملک ھے جو لاکھوں کیوسک میٹھا پانی سمندر کی نظر کرتا ھے۔
اب پھر جولائی اگست آنے والے ھیں بارشیں ھوں گئیں سیلاب آئے گا تباھی ھو گئی فضلیں برباد ھوں گئیں سیلاب زدگاں کے نام پر لوٹ مار ھو گئی دورے ھوں گئے تقریریں ھو گئیں اور 72 سال سے چلنے والی فلم دوبارہ چلے گئی اور پھر اگلے سال کے چکر میں سو جائیں یہی ھو رھا ھے حکومتیں تبدیل ھوتی ھیں مگر بنیادی ایشوز وھی کے وھی ھیں
.پالیسی میکرز سے درخواست ھے کہ اے سی کمروں سے نکل کر دیکھیں کہ کیا ھورھا ھے یہ ملک ھے تو سب کچھ ھے آج بھی وقت ھے کہ برساتی پانی کو محفوظ بنانے کے عملی اقدامات کریں دریاوں میں جھیلیں بنائیں. پانی ضائع ھونے سے بچائیں تاکہ دریاوں میں سارا سال پانی رھے کسانوں کو زراعت کے لئے پانی ملے
آج سیاست دان ,میڈیا اور دیگر ادارے ملک و قوم کی محبت میں پاگل ھوئے جاتے ہیں اس چکر میں قوم کو اس حد تک لے گئے ہیں کہ کسی کی عزت تک محفوظ نہیں رھی .سوشل میڈیا نے تو انتہا کر دی ھے نہ کسی کی ماں محفوظ نہ بہن، اخلاقیات کا جنازہ ھی نکل چکا صرف پیسہ کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں.
برائے مہربانی پاکستان کا سوچیں اس کے مستقبل کے بارے سوچیں ۔۔لنگر خانوں کی بجائے جنگی بنیادوں پر بارشی یا سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کے منصوبے تیار کریں۔دریاوں کو گہرا کریں اور دونوں اطراف پر بند تعمیر کریں ۔سیالکوٹ گجرات لاھور اور شیخوپورہ کے برساتی نالوں میں جھلیں بنائیں تاکہ ان کا پانی ضائع ھونےسے بچایا جاسکے ۔
جاتلاں ہیڈ ورکس کی مثال ھمارے سامنے ھے جو انگریز نے ضلع گجرات میں پہاڑوں سے انے والے برساتی پانی کو محفوظ کرنے کے لیے بنایا تھا جس کا پانی سال بھر کاشت کاروں کو سپلائی کیا جاتا ھے
ان منصوبوں کے لیے جیلوں میں بند ھزاروں قیدیوں جن کو تین وقت کا کھانے پہلے ھی سرکار دے رھی ھے اور پاک فوج کے جوانوں کو استعمال کیا جا سکتا ھے ۔جہاں تک بڑے بنانے کا مسلہ ھے اس کے بارے دریاوں کے تحفظ کی عالمی تنظیم انڑنشینل ریورز کے مطابق دنیا بھر میں بڑے ڈیم بنانے کا رحجان کم از کم ھوتا جارھا ھے۔ اس لیے چھوٹے چھوٹے پانی کے ذخیرے بنائیں ۔۔