جعفر بن یار
بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر محمد روح العالم صدیق نے کہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے فروغ کی وسیع گنجائش ہے جس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے، عالمی اقتصادی عوامل ، افراط زر اور دیگر کئی وجوہات کی بناءپر باہمی تجارتی حجم ایک ارب ڈالر تک محدود ہے۔ وہ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں خطاب کر رہے تھے۔ لاہور چیمبر کے صدر کاشف انور نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا جبکہ بنگلہ دیش کے اعزازی قونصل جنرل قاضی ہمایوں فرید، فریحہ یونس نے بھی اس موقع پر خطاب کیا۔ اجلاس میں لاہور چیمبر کی ایگزیکٹو کمیٹی کے اراکین بھی اجلاس میں موجود تھے۔ہائی کمشنر نے کہا کہ بنگلہ دیش کی پاکستان سے درآمدات اسے برآمدات کی نسبت زیادہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ علاقائی تجارت بہت اہمیت کی حامل ہے تاہم آسیان اور یورپین یونین کے مقابلے میں آسیان خطے میں تجارت و سرمایہ کاری کے مواقع سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھاسکا۔ انہوں نے کہا کہ سارک کے ممبر ممالک کو تجارت کے فروغ کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے لاہور چیمبر پر زور دیا کہ وہ بنگلہ دیش میں تجارت و سرمایہ کاری کے مواقع کا جائزہ لینے کے لیے ایک تجارتی وفد تشکیل دے۔ بنگلہ دیشی ہائی کمشنر نے کہا کہ پاکستان فوڈ پراسیسنگ کے شعبے میں مہارت رکھتا ہے، بنگلہ دیش اس شعبہ میں پاکستان سے فائدہ اٹھا سکتا تھا، بنگلہ دیش پہلے روس اور یوکرین سے کھاد درآمد کرتا تھا اور اب پاکستان سے کھاد درآمد کرنے کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کو باہمی تجارت کے فروغ کے لیے نئے راستے تلاش کرنے چاہئیں۔ لاہور چیمبر کے صدر نے کہا کہ ہندوستان کے علاوہ پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں اپنی معیشتوں کے حجم کے لحاظ سے سارک کے کلیدی رکن ہیں، اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم علاقائی تجارت میں اپنا حصہ بڑھانے کے لیے اس پلیٹ فارم کو بھرپور استعمال کریں۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ دو طرفہ تجارت کا توازن پاکستان کے حق میں ہے لیکن اس کا حجم حقیقی صلاحیت سے کم ہے۔ بنگلہ دیش کی عالمی تجارت تقریباً 129 بلین ڈالر ہے، اس کو دیکھتے ہوئے باہمی تجارت بڑھانا ضروری ہے۔
لاہور چیمبر کے صدر نے کہا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق 2021-22 کے دوران پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان دو طرفہ تجارت تقریباً 800 ملین ڈالر تھی۔ بنگلہ دیش سے پاکستان کی درآمدات 77 ملین ڈالر تھیں جبکہ بنگلہ دیش کو ہماری برآمدات 721 ملین ڈالر تھیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم اس سال بہتر تجارت کی توقع رکھتے ہیں۔ کاشف انور نے کہا کہ پاکستان بنگلہ دیش کو سوتی کپڑے، سیمنٹ، یارن، کاربونیٹ، ویکیوم پمپ، چمڑا اور دیگر ٹیکسٹائل اشیاءوغیرہ کا بڑا سپلائر ہے۔
دوسری جانب بنگلہ دیش سے درآمدات میں جوٹ، غیر تیار شدہ تمباکو، مصنوعی سٹیپل فائبر، ہائیڈروجن پیرو آکسائیڈ اور جوٹ کا یارنوغیرہ شامل ہیں۔ تجارت کو بڑھانے کے لیے نئی راہیں تلاش کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کہ تجارتی حجم کو موجودہ 2 بلین ڈالر کے اعداد و شمار سے بھی آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بنگلہ دیش کو مختلف اشیاءبرآمد کرنے کی بڑی صلاحیت ہے جو دوسرے ممالک سے درآمد کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دیگر ممکنہ شعبے جہاں پاکستان اور بنگلہ دیش اقتصادی تعاون اور تجارت کو بڑھا سکتے ہیں وہ ہیں انفارمیشن ٹیکنالوجی سروسز، آئرن اینڈ سٹیل کی مصنوعات،
آلات جراحی، پراسیسڈ فوڈ، پلاسٹک کی مصنوعات، آٹو موٹیو پارٹس، خوردنی پھل، کھیلوں کا سامان، فارماسیوٹیکل مصنوعات اور کیمیکل کے شعبوں میں بھی مشترکہ منصوبہ سازی کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش میں سرمایہ کاروں کے لیے پاکستان میں مختلف شعبوں بشمول سیاحت، زراعت، ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل، تعمیراتی شعبے اور توانائی کے شعبے بالخصوص قابل تجدید توانائی کے ذریعے پاکستان میں سرمایہ کاری کے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔انہوں نے تجارتی وفود کے تبادلے کی ضرورت پر بھی زور دیا