ٹرمپ

ٹیرف غنڈہ گردی کو روکنے کے لئے عالمی یکجہتی و تعاون ناگزیر ہے, چینی میڈ یا

بیجنگ (رپورٹنگ آن لائن)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یورپی یونین اور میکسیکو کو ارسال کئے گئے خطوط میں یکم اگست سے مذکورہ دونوں ممالک سے امریکا کو برآمد کی جانے والی اشیاء پر 30 فیصد محصولات عائد کرنے کی دھمکی دے دی۔یوں امریکا کےاہم عالمی تجارتی “شراکت داروں” کے سر پر ٹیرف کی تلوار لٹکا دی گئی۔

اب تک، امریکا کی جانب سے برازیل پر 50فیصد ٹیرف عائد کرنے کی دھمکی دی گئی، جو کہ تمام ممالک میں سب سے زیادہ ہے. جنوب مشرقی ایشیائی ممالک، جو امریکہ کی سپلائی چین میں اہم شراکت دار ہیں، ان پر بھی بھاری ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے۔ جہاں تک امریکا کے نام نہاد “اتحادیوں” کا تعلق ہے، ٹرمپ نے ان پر ایک فیصد کی نرمی بھی اختیار نہیں کی۔ جاپان اور جنوبی کوریا پر 25 فیصد، میکسیکو اور یورپی یونین پر 2 اپریل کو اعلان کردہ 25 فیصد سے بڑھا کر 30 فیصد تک جبکہ کینیڈا پر براہ راست 35 فیصد تک محصولات عائد کیے جا رہے ہیں۔

بڑھتی ہوئی تجارتی غنڈہ گردی عالمی تجارتی نظام کو کھائی میں دھکیل رہی ہے۔ “تجارتی خسارے” کے نام پر امریکا نے محصولات کو دوسروں پر اندھا دھند حملہ کرنے کی “سیاسی چھڑی” میں تبدیل کر دیا ہے ،جس کی مختلف ممالک کی جانب سے شدید مذمت اور مخالفت کی گئی ہے۔ برازیل نے واضح کیا ہے کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو وہ مساوی جوابی اقدامات کرے گا۔ جاپان کا کہنا تھا کہ وہ کبھی سر نہیں جھکائےگا۔ فرانسسی صدر ایمانوئل میکرون نے امریکی حکومت کے فیصلے کی شدید مذمت کی ہے۔ یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈیر لیئن نے ایک بیان میں کہا کہ یورپی یونین اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھائے گی، جس میں ضرورت پڑنے پر متناسب جوابی اقدامات بھی شامل ہیں۔ یورپی پارلیمنٹ نے اس سے بڑھ کر واضح کیا ہے کہ امریکا کے خلاف “فوری جوابی اقدامات کیے جانے چاہئیں”۔

ایک ذمہ دار بڑے ملک کی حیثیت سے ، چین نے امریکا کی ٹیرف دھمکی کے سامنے فوری جوابی اقدامات اٹھا کر بین الاقوامی قواعد و ضوابط کو مؤثر طریقے سے برقرار رکھا ، اور امریکا کو 90 دنوں تک نام نہاد “مساوی ٹیرف” کی معطلی کا اعلان کرنے پر مجبور کیا ، تاکہ دوسرے ممالک کو جواب دینے میں زیادہ وقت اور گنجائش مل سکے۔ چین کی اخلاقی ذمہ داری اور “آخر تک لڑنے “کےعملی اقدامات نے دنیا کے سامنے یہ ثابت کر دیا ہے کہ غنڈہ گردی کے سامنے جھک جانے سے عزت نہیں ملتی اور دوسروں پر انحصار صرف گہرے استحصال کا باعث بنے گا۔ غنڈہ گردی کی محض مذمت کافی نہیں ہے، اور صرف یکجہتی اور تعاون ہی تجارتی غنڈہ گردی کو روک سکتا ہے.

چینی صدر شی جن پھنگ نے واضح کیا ہے کہ ترقی کھلےپن سے ہوتی ہے جبکہ بندش پسماندگی کا باعث بنتی ہے۔ اس سال کے آغاز سے ہی چین نے یکطرفہ پسندی اور تحفظ پسندی کے خلاف واضح موقف اختیار کرنا جاری رکھا ہے اور اعلیٰ معیار کی اصلاحات اور کھلے پن کے ساتھ “گلوبل ساؤتھ” میں یکجہتی، تعاون اور خود انحصاری کو فروغ دیا ہے۔

چین نے غریب ترین ممالک اور پورے افریقہ کو 100 فیصد زیرو ٹیرف ٹریٹمنٹ فراہم کرنے کی پہل کی ہے، چین-آسیان فری ٹریڈ ایریا (سی اے ایف ٹی اے) 3.0 مذاکرات کو مکمل کیا ہے، آسیان-چین-جی سی سی سربراہ اجلاس میں بین العلاقائی تعاون کا ایک نیا ماڈل تیار کیا ہے، اور “آزاد تجارت کے زیادہ سے زیادہ تحفظ” کے لئے عملی اقدامات کے ساتھ مشترکہ مارکیٹ کو وسعت دی ہے.یہ “اعلی معیار کے علاقائی آزاد تجارتی نیٹ ورک” کی تعمیر کے ذریعے مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے ایک عقلمندا قدام ہے۔

تاریخ نے بار بار ثابت کیاہے کہ یکطرفہ غنڈہ گردی کا سلسلہ آخر کار مجرم کا گلا گھونٹ دے گا۔ ٹرمپ کا ٹیرف دیکھنے میں خوفناک لگتا ہے، لیکن اس سے پیدا ہونے والی افراتفری کی قیمت بالآخر امریکی صارفین ہی کو مجبوراً ادا کرنی پڑے گی۔ مثال کے طور پر، برازیل اور میکسیکو کے خلاف امریکا کی طرف سے اعلان کردہ محصولات کے خطرے کو ہی لے لیں: امریکا اپنی کافی کی کھپت کے ایک تہائی اور نصف سے زیادہ اورنج جوس کے لئے برازیل کی درآمدات پر انحصار کرتا ہے.

برازیل پر 50 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا مطلب ہے کہ روزمرہ کی ضروریات کی قیمتوں میں تیز ی سے اضافہ ہوگا۔ اسی طرح امریکی مارکیٹ اپنے تازہ ٹماٹر کا 72 فیصد درآمد کرتی ہے جن میں سے 90 فیصد میکسیکو سے آتا ہے۔ اگر امریکہ اور میکسیکو کے درمیان ٹماٹر کی درآمدات کا معاہدہ ختم ہونے کی وجہ سے 17 فیصد ٹیرف نافذ ہوتا ہے تو اس سے نہ صرف امریکی مارکیٹ میں ٹماٹر کی قیمت میں اضافہ ہوگا بلکہ امریکہ میں تقریباً 47 ہزار متعلقہ ملازمتوں کے نقصان کا بھی خدشہ بڑھ جائے گا۔

“ٹیرف” اصل میں ایک غیر جانبدار محصولاتی آلہ ہے ، لیکن اب اسے بالادستی نے عالمی معیشت اور تجارت کو تباہ کرنے کے لئے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ جب تجارت سیاسی جبر کے لیے سودے بازی کا ذریعہ بن جاتی ہے تو دنیا بھر کے ممالک کو یہ جاننا چاہیے کہ اگر وہ انتظار کرتے ، ہچکچاتے ، یا فرمانبرداری کے ذریعے بقا کا تصور کرتے .

یا آپس میں شک کرکے تقسیم ہو جاتے ہیں، تو بالادستی کا آہنی پردہ آخر کار دنیا کے ہر کونے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ صرف واضح اتفاق رائے اور یکجہتی و تعاون کو تلوار کے طور پر مضبوط بنانے سے ہی تمام ممالک مشترکہ مفادات کا دفاع کرتے ہوئے قوائد و ضوابط اورمشترکہ کامیابیوں پر مبنی عالمی تجارتی مستقبل کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔