اسلام آباد(رپورٹنگ آن لائن)نائب وزیراعظم اوروزیرخارجہ اسحاق ڈار نے کہا ٹرمپ کے 20نکات ہمارے نہیں ، ڈرافٹ میں تبدیلی کی گئی، سعودیہ کے ساتھ معاہدے کے بعد مزید ممالک شامل ہوئے تو نیٹو طرز کا اتحاد بن جائے گا، پاکستان مسلم امہ کی قیادت کرے گا۔
قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے کہا کہ غزہ میں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں، اقوام متحدہ، یورپی یونین اور دوسرے عالمی ادارے غزہ میں امن قائم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ صمود فوٹیلا میں ہمارے ایک سینیٹر صاحب بھی تھے ، ہمارا اسرائیل سے کوئی روابط نہیں، کوئی رابطہ نہیں، اسرائیل نے 22 کشتیاں تحویل میں لے کر لوگوں کو تحویل میں لیا ہے ، ہماری اطلاع کے مطابق سینیٹر مشتاق احمد بھی تحویل میں لیے جانے والوں میں شامل ہیں۔
فلسطین کے حوالے سے قائد اعظم کی پالیسی پر ہی عمل پیرا ہیں، فلوٹیلا میں شامل پاکستانیوں کی بحفاظت واپسی کے لیے کوشاں ہیں، سابق سینیٹر مشتاق کی رہائی کیلئے یورپی ممالک سے مدد لے لی، غزہ میں امن بیانات سے نہیں عملی اقدامات سے ہی ممکن ہوگا۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں قوم کی بھرپور نمائندگی کی، کشمیر کے ساتھ فلسطین کا مسئلہ اٹھایا، عالمی معاملات پر گفتگو کی اور موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ اٹھایا، وہاں اسرائیل کا نام لے کر اس کی مذمت کی گئی۔
جنرل اسمبلی جانے سے پہلے ہماری بات ہوئی کہ اقوام متحدہ کا اجلاس تو ہر سال ہوتا ہے ، اس بار 80 واں ہورہا ہے تاہم اقوام متحدہ غزہ میں خونریزی رکوانے میں ناکام ہوچکا ہے ، یورپی یونین ناکام ہوچکی ہے ، عرب ممالک ناکام ہوچکے ہیں، ہماری کوشش تھی کہ کچھ ممالک کے ساتھ ملکر امریکا جو آخری امید ہے اسے انگیج کیا جائے اور معصوم جانوں کی روز ہونے والی خونریزی، بھوک سے اموات،بے دخلی اور مغربی کنارے کو ہڑپ کرنے کے منصوبے کو روکا جائے ۔
غزہ امن معاہدے کیلئے ٹرمپ نے جو 20 نکات پیش کئے وہ ہمارے نہیں، یہ وہ ڈرافٹ ہے جس میں تبدیلی کی گئی ہے ،20 نکاتی ڈرافٹ میں تبدیلیاں ہمیں قبول نہیں۔ فلسطین کے حوالے سے قائد اعظم کی پالیسی پر ہی عمل پیرا ہیں۔‘فلسطین پر پاکستان کی پالیسی میں نہ کوئی تبدیلی ہوئی اور نہ ہوگی۔ ایک منصوبہ تھا کہ کچھ ممالک مل کر امریکی صدر سے رابطہ کریں اور انہیں اس میں شامل کریں کہ اس وقت سب سے زیادہ تکلیف دہ مسئلہ فلسطین ہے جہاں 64 ہزار افراد شہید اور ڈیڑھ لاکھ سے زائد زخمی ہوچکے ہیں، اقوام متحدہ میں درجنوں قرار دادیں منظور ہوچکی ہیں، او آئی سی کی قرار دادیں منظور ہوچکی ہیں۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ میں نے اقوام متحدہ میں اپنی تقریر میں کہا کہ غزہ انسانوں کے قبرستان کے ساتھ ساتھ عالمی ضمیر کا قبرستان بھی بن چکا ہے ۔
نائب وزیراعظم نے کہا کہ 5 عرب ممالک، پاکستان، ترکیہ اور انڈونیشیا کے صدور اور وزرائے اعظم نے اپنے وزرائے خارجہ کے ہمراہ امریکی صدر سے ملاقات کی ۔اسحاق ڈار نے کہا کہ صدر ٹرمپ سے ہونے والی مسلم ممالک کے رہنمائوں کی ملاقات سے ایک اور بھی ملاقات ہوئی تھی ، یہ بات ذرائع ابلاغ میں نہیں آئی کیونکہ خدشہ تھا کہ اس معاملے کو خراب کرنے والے میدان میں کود پڑیں گے ، ہم نے دیکھا ہے کہ نہ اقوام متحدہ کی قرارداد یں غزہ میں خونریزی روک سکیں نہ سلامتی کونسل روک سکی نہ عرب ممالک خود روک سکے ، وہاں تقاریر بہت ہوئی ہیں.
اس ایوان نے بھی بہت سنجیدگی سے ایک قرارداد منظور کی مگر نتیجہ کیا تھا وہاں خون بہہ رہا تھا۔ نائب وزیر اعظم نے کہا کہ صدر ٹرمپ سے ملاقات سے ایک روز قبل 8 ممالک کے وزرائے خارجہ کی صدر ٹرمپ کے ساتھ اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز کے اندر غیر رسمی ملاقات ہوئی جس میں ہم سب نے بات کی کہ اس وقت جو کچھ ہورہا ہے وہ شرمناک ہے ، اگر ہم اسے روک نہیں سکتے تو پھر جنرل اسمبلی کا کیا فائدہ؟۔نائب وزیراعظم نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے ہماری باتوں پر مثبت ردعمل دیا اور کہا کہ پھر اس طرح کریں کہ آپ 8 وزرائے خارجہ میری ٹیم کے ساتھ بیٹھ جائیں اور کوئی قابل عمل حل پیش کریں، میں نیتن یاہو سے ہونے والی ملاقات میں اسے روکنے کی کوشش کرتا ہوں، اس ملاقات کی یہ روح تھی، اس میں کسی کا ذاتی ایجنڈا نہیں تھا، اگر کچھ کرواسکتے تھے وہ تمام فورم کچھ کروالیتے جو 2 سال میں نہیں کرواسکے ۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ اگلے دن دوبارہ ملاقات طے ہوئی، قطری سفارتخانے میں ملاقات ہوئی جسے منظر عام پر نہیں لایا گیا، کوئی تصویر نہیں جاری کی گئی، اس ملاقات میں صدر ٹرمپ کی ٹیم بھی آئی جس سے کافی طویل ملاقات ہوئی اور انہوں نے ہمیں 20 نکاتی ایجنڈادیا جس پر ہم نے انہیں کہا کہ ہم مشاورت کے بعد اگلے روز جواب دیں گے ۔نائب وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے اسی ڈرافٹ میں رہتے ہوئے اپنی چیزیں شامل کیں، ہم نے 8 ممالک کا حتمی ڈرافٹ امریکا کو بھجوایا گیا جو امریکی انتظامیہ کو موصول ہوگیا۔اسحق ڈار نے کہا کہ امریکا نے پیر کو 20 نکاتی منصوبے کا اعلان کیا، میں اس وقت لندن سے پاکستان آرہا تھا تو میری سعودی ہم منصب سے بات ہوئی.
سعودی وزیرخارجہ نے بتایا کہ ہماری ہنگامی چیزیں مان لی گئی ہیں لیکن کچھ چیزوں پر ہمیں دوبارہ بات کرنا پڑے گی۔اسحاق ڈار نے بتایا کہ سعودی وزیر خارجہ نے ان سے کہا کہ ہم چیزوں کا انتخاب کرسکتے ہیں ایک یہ ہے کہ جو ہورہا ہے اسے ہوتے رہنے دیں، جتنے لوگ مر رہے ہیں انہیں مرنے دیں، جتنی خونریزی ہورہی ہے اسے ہونے دیں، مزید لوگوں کو بے دخل ہونے دیں یا پھر دوسرا حل یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کے معاہدے کو فوری نافذ ہونے دیں اور اپنا ایک مشترکہ بیان جاری کریں، جسے منظر عام پر لایاجائے اور امریکا کو بھی ارسال کیا جائے ۔اسحاق ڈار نے بتایا کہ میں نے سعودی وزیر خارجہ سے کہا کہ آپ صحیح کہہ رہے ہیں ہمیں ایسا ہی کرنا چاہیے ، وہ مشترکہ بیان مجھے پیر کی رات کو ملا، اس پر سعودی وزیر خارجہ سے رابطے میں ہوں۔
انہوں نے کہا کہ میں اور سعودی وزیر خارجہ نے مشترکہ بیان میں موجود اسرائیل کا نام بھی کٹوایا ہے کہ ہم اس کا نام بھی سننا نہیں چاہتے ، ہماری سفری دستاویز کہتی ہے کہ یہ اسرائیل کے علاوہ تمام ممالک کے سفر کے لیے کارآمد ہے ، اسرائیل کا لفظ ہمارا نو گو ایریا ہے ، انہوں نے رات ایک بجے یہ بیان فائنل ہوا۔اسحاق ڈار نے ایوان میں مسلم ممالک کا مشترکہ بیان بھی پڑھ کر سنایا۔5 عرب اور پاکستان سمیت 3 اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ اردن، متحدہ عرب امارات، جمہوریہ انڈونیشیا، اسلامی جمہوریہ پاکستان، جمہوریہ ترکیہ، مملکت سعودی عربیہ،
ریاست قطر اور عرب جمہوریہ مصر کے وزرائے خارجہ صدر ٹرمپ کی قیادت اور غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے ان کی سنجیدہ کوششوں کا خیرم مقدم کرتے ہیں اور امن کا راستہ تلاش کرنے کی ان کی صلاحیت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔بیان میں گیا ہے کہ ہم خطے میں امن کے لیے امریکا کے ساتھ شراکت داری کو اہمیت دیتے ہیں، آٹھوں وزرائے خارجہ نے غزہ میں جنگ کے خاتمے ، غزہ کی تعمیر نو، فلسطینی عوام کی بے دخلی روکنے ، پائیدار امن کے قیام اور مغربی کنارے کو ضم کرنے کے اسرائیلی اقدام کو قبول نہ کرنے کے امریکی اعلان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ وزرائے خارجہ اس یقین کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ مثبت اور تعمیری سوچ کے ساتھ تیار ہیں کہ وہ امریکا اور دیگر فریقین کے ساتھ اس معاہدے کو حتمی شکل دیں اور اس پر اس طرح عملدرآمد کو یقینی بنائیں جس کے ذریعے اس خطے میں لوگوں کو امن و سلامتی میسر آسکے ۔اسحاق ڈار نے بتایا کہ بیان کے آخری حصے میں کہا گیا کہ وزرائے خارجہ اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ وہ ایک جامع منصوبے کے ذریعے غزہ میں جنگ کے خاتمے کی امریکی کوششوں کا ساتھ دیں گے ، اس منصوبے میں غزہ میں امداد کی بلا روک ٹوک رسائی، فلسطینیوں کی بے دخلی روکنے .
یرغمالیوں کی رہائی، تمام فریقین کی یقینی سلامتی کا لائحہ عمل، مکمل اسرائیلی انخلا، غزہ کی تعمیر نو اور ایسے راستے کا قیام جس کے ذریعے دو ریاستی حل کے ذریعے امن کا قیام ممکن ہوسکے ۔اس موقع پراسحاق ڈار نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کی ریاست پالیسی تو دو ریاستی حل ہی ہے ، کسی ایک کی پالیسی نہ ہوتو الگ بات ہے ، پاکستان کی پالیسی تو یہی ہے ۔ سپیکر سردار ایاز صادق نے کہا کہ پی ٹی آئی کے لیڈر نے ماضی میں جہاز گرنے کے واقعہ کے بعد ایوان کے ان کیمرہ اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی۔سینیٹر مشتاق احمد کی اسرائیل کے ہاتھوں گرفتاری پر ہم سب کو تشویش ہے ۔
اسد قیصر اسد نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ ہمارے سینیٹر مشتاق احمد خان اسرائیل کی حراست میں ہیں۔حکومت بتائے اس واقعہ پر اس نے کیا اقدامات کیے ہیں۔فلسطین کے حوالے سے 20 نکات پر ایوان میں تفصیلی بحث ہونی چاہیے ۔ غزہ بارے نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار خود بھی کنفیوز نظر آ رہے ہیں۔ علاوہ ازیں پیپلز پارٹی نے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے بیانات کے خلاف ایوان سے واک آؤٹ کیا۔ پیپلز پارٹی کے نوید قمر کا کہنا تھا کہ ہم ایوان سے بطور احتجاج واک آؤٹ کرتے ہیں، آن گراؤنڈ حالات جوں کے توں ہیں اور کوئی تبدیلی نہیں آئی.
ہم اس وقت اس ایوان کا حصہ نہیں بن سکتے جب تک حالات تبدیل نہیں ہوتے ۔بعد ازاں حکومتی ارکان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو منا کر واپس قومی اسمبلی اجلاس میں لے آئے ۔اس موضوع پر نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے کہا کہ مذاکرات ہی مسائل کا واحد حل ہیں، تمام معاملات افہام وتفہیم سے حل ہوسکتے ہیں، ایک دوسرے پر الزام تراشی کسی کے لئے بھی فائدہ مند نہیں۔بعدازاں نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کی تقریر کے بعد قومی اسمبلی اجلاس پیر کی شام 5 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔