اسلام آباد (رپورٹنگ آن لائن)نائب وزیراعظم اسحق ڈار نے کہا ہے کہ فلسطین کے حوالے سے قائد اعظم کی پالیسی پر ہی عمل پیرا ہیں، امریکی صدر ٹرمپ کے اعلان کردہ 20 نکات ہمارے نہیں، فلوٹیلا میں شامل پاکستانیوں کی بحفاظت واپسی کے لیے کوشاں ہیں، سابق سینیٹر مشتاق کی رہائی کیلئے یورپی ممالک سے مدد لے لی، غزہ میں امن بیانات سے نہیں عملی اقدامات سے ہی ممکن ہوگا۔
جمعہ کو قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نائب وزیراعظم اسحق ڈار نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں قوم کی بھرپور نمائندگی کی، کشمیر کے ساتھ فلسطین کا مسئلہ اٹھایا، عالمی معاملات پر گفتگو کی اور موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ اٹھایا، وہاں اسرائیل کا نام لے کر اس کی مذمت کی گئی۔اسحق ڈار نے کہا کہ جنرل اسمبلی جانے سے پہلے ہماری بات ہوئی کہ اقوام متحدہ کا اجلاس تو ہر سال ہوتا ہے، اس بار 80 واں ہورہا ہے تاہم اقوام متحدہ غزہ میں خونریزی رکوانے میں ناکام ہوچکا ہے، یورپی یونین ناکام ہوچکی ہے ، عرب ممالک ناکام ہوچکے ہیں، ہماری کوشش تھی کہ کچھ ممالک کے ساتھ ملکر امریکا، جو آخری امید ہے اسے انگیج کیا جائے اور معصوم جانوں کی روز ہونے والی خونریزی، بھوک سے اموات اور بے دخلی اور مغربی کنارے کو ہڑپ کرنے کے منصوبے کو روکا جائے۔
اسحق ڈار نے کہا کہ اس صورتحال میں ایک منصوبہ تھا کہ کچھ ممالک مل کر امریکی صدر سے رابطہ کریں اور انہیں اس میں شامل کریں کہ اس وقت سب سے زیادہ تکلیف دہ مسئلہ ہے، جہاں 64 ہزار افراد شہید اور ڈیڑھ لاکھ سے زائد زخمی ہوچکے ہیں، اقوام متحدہ میں درجنوں قرار دادیں منظور ہوچکی ہیں، او آئی سی کی قرار دادیں منظور ہوچکی ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں نے اقوام متحدہ میں اپنی تقریر میں کہا کہ غزہ انسانوں کے قبرستان کے ساتھ ساتھ عالمی ضمیر کا قبرستان بھی بن چکا ہے۔نائب وزیراعظم نے کہا کہ 5 عرب ممالک، پاکستان، ترکیہ اور انڈونیشیا کے صدور اور وزرائے اعظم نے اپنے وزرائے خارجہ کے ہمراہ امریکی صدر سے ملاقات کی ۔
اسحق ڈار نے انکشاف کیا کہ صدر ٹرمپ سے ہونے والی مسلم ممالک کے رہنمائوں کی ملاقات سے ایک اور بھی ملاقات ہوگی، یہ بات ذرائع ابلاغ میں نہیں آئی کیونکہ خدشہ تھا کہ اس معاملے کو خراب کرنے والے میدان میں کود پڑیں گے، ہم نے دیکھا ہے کہ نہ اقوام متحدہ کی قرارداد غزہ میں خونریزی روک سکیں، نہ سلامتی کونسل روک سکی نہ عرب ممالک خود روک سکے، وہاں تقاریر بہت ہوئی ہیں، اس ایوان نے بھی بہت سنجیدگی سے ایک قرارداد منظور کی مگر نتیجہ کیا تھا وہاں خون بہہ رہا تھا۔
اسحق ڈار نے بتایا کہ صدر ٹرمپ سے ملاقات سے ایک روز قبل 8 ممالک کے وزرائے خارجہ کی صدر ٹرمپ کے ساتھ اقوام متحدہ کے ہیڈاکوارٹرز کے اندر غیر رسمی ملاقات ہوئی جس میں ہم سب نے بات کی کہ اس وقت جو کچھ ہورہا ہے وہ شرمناک ہے، اگر ہم اسے روک نہیں سکتے تو پھر جنرل اسمبلی کا کیا فائدہ؟۔نائب وزیراعظم نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے ہماری باتوں پر مثبت ردعمل دیا اور کہا کہ پھر اس طرح کریں کہ آپ 8 وزرائے خارجہ میری ٹیم کے ساتھ بیٹھ جائیں اور کوئی قابل عمل حل پیش کریں، میںگزشتہ ہفتے کو نیتن یاہو سے ہونے والی ملاقات میں نیتن یاہو اسے روکنے کی کوشش کرتا ہوں.
اس ملاقات کی یہ روح تھی، اس میں کسی کا ذاتی ایجنڈا نہیں تھا، اگر کچھ کرواسکتے تھے وہ تمام فورم کچھ کروالیتے جو 2 سال میں نہیں کرواسکے۔اسحق ڈار نے کہ اگلے دن دوبارہ ملاقات طے ہوئی، قطری سفارتخانے میں ملاقات ہوئی، جسے منظر عام پر نہیں لا گیا، کوئی تصویر نہیں جاری کی گئی، اس ملاقات میں صدر ٹرمپ کی ٹیم بھی آئی، جس سے کافی طویل ملاقات ہوئی اور انہوں نے ہمیں 20 نکاتی پرپوزل دیا، جس پر ہم نے انہیں کہا کہ ہم مشاورت کے بعد اگلے روز جواب دیں گے۔
نائب وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے اسی ڈرافٹ میں رہتے ہوئے اپنی چیزیں شامل کیں، جمعہ کو ہم 8 ممالک کا حتمی ڈرافٹ امریکا کو بھجوایا گیا جو ہفتے کو امریکی اتنظامیہ کو موصول ہوگیا۔اسحق ڈار نے کہا کہ امریکا نے پیر کو 20 نکاتی منصوبے کا اعلان کیا، میں اس وقت لندن سے پاکستان آرہا تھا تو میری سعودی ہم منصب سے بات ہوئی، سعودی وزیرخارجہ نے بتایا کہ ہماری ہنگامی چیزیں مان لی گئی ہیں لیکن کچھ چیزوں پر ہمیں دوبارہ بات کرنا پڑے گی۔اسحق ڈار نے بتایا کہ سعودی وزیر خارجہ نے ان سے کہا کہ ہم چیزوں کا انتخاب کرسکتے ہیں ایک یہ ہے کہ جو ہورہا ہے اسے ہوتے رہنے دیں.
جتنے لوگ مر رہے ہیں انہیں مرنے دیں، جتنی خونریزی ہورہی ہے اسے ہونے دیں، مزید لوگوں کو بے دخل ہونے دیں یا پھر دوسرا حل یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کے معاہدے کو فوری نافذ ہونے دیں اور اپنا ایک مشترکہ بیان جاری کریں، جسے منظر عام پر لایاجائے اور امریکا کو بھی ارسال کیا جائے۔اسحق ڈار نے بتایا کہ میں نے سعودی وزیر خارجہ سے کہا کہ آپ صحیح کہہ رہے ہیں ہمیں ایسا ہی کرنا چاہیے، وہ مشترکہ بیان مجھے پیر کی رات کو ملا، اس پر سعودی وزیر خارجہ سے رابطے میں ہوں۔
انہوں نے کہا کہ میں نے سعودی وزیر خارجہ مشترکہ بیان میں موجود اسرائیل کا نام بھی کٹوایا ہے کہ ہم اس کا نام بھی سننا نہیں چاہتے، ہماری سفری دستاویز کہتی ہے کہ یہ اسرائیل کے علاوہ تمام ممالک کے سفر کے لیے کارآمد ہے، اسرائیل کا لفظ ہمارا نو گو ایریا ہے، انہوں نے رات ایک بجے یہ بیان فائنل ہوا۔اسحق ڈار نے ایوان میں مسلم ممالک کا مشترکہ بیان بھی پڑھ کر سنایا۔
5 عرب اور پاکستان سمیت 3 اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ اردن، متحدہ عرب امارات، جمہوریہ انڈونیشیا، اسلامی جمہوریہ پاکستان، جمہوریہ ترکیہ، مملکت سعودی عربیہ، ریاست قطر اور عرب جمہوریہ مصر کے وزرائے خارجہ صدر ٹرمپ کی قیادت اور غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے ان کی سنجیدہ کوششوں کا خیرم مقدم کرتے ہیں اور امن کا راستہ تلاش کرنے کی ان کی صلاحیت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔
بیان میں گیا ہے کہ ہم خطے میں امن کے لیے امریکا کے ساتھ شراکت داری کو اہمیت دیتے ہیں، آٹھوں وزرائے خارجہغزہ میں جنگ کے خاتمے، غزہ کی تعمیر نو، فلسطینی عوام کی بے دخلی روکنے ، پائیدار امن کے قیام اور مغربی کنارے کو ضم کرنے کے اسرائیلی اقدام کو قبول نہ کرنے کے امریکی اعلان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔بیان میں کہا گیا ہے کہ وزرائے خارجہ اس یقین کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ مثبت اور تعمیری سوچ کے ساتھ تیار ہیں کہ وہ امریکا اور دیگر فریقین کے ساتھ اس معاہدے کو حتمی شکل دیں اور اس پر اس طرح عملدرآمد کو یقینی بنائیں جس کے ذریعے اس خطے میں لوگوں کو امن و سلامتی میسر آسکے۔
اسحق ڈار نے بتایا کہ بیان کے آخری حصے میں کہا گیا کہ وزرائے خارجہ اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ وہ ایک جامع منصوبے کے ذریعے غزہ میں جنگ کے خاتمے کی امریکی کوششوں کا ساتھ دیں گے، اس منصوبے میں میں غزہ میں امداد کی بلا روک ٹوک رسائی، فلسطینیوں کی بے دخلی روکنے، یرغمالیوں کی رہائی، تمام فریقین کی یقینی سلامتی کا لائحہ عمل، مکمل اسرائیلی انخلا، غزہ کی تعمیر نو اور ایسے راستے کا قیام جس کے ذریعے دو ریاستی حل کے ذریعے امن کا قیام ممکن ہوسکے۔
اس موقع پر اسحق ڈار نے تائید طلب نگاہوں سے ایوان کو دیکھتے دعوی کیا کہ پاکستان کی ریاست پالیسی تو دو ریاستی حل ہی ہے، کسی ایک کی پالیسی نہ ہوتو الگ بات ہے ، پاکستان کی پالیسی تو یہی ہے۔