ٹرمپ کے خط میں دھمکی تھی اور ہم نے اپنا جواب جمع کرا دیا، ایرانی وزیر خارجہ

تہران (رپورٹنگ آن لائن )ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ ایران سلطنت عمان کے ذریعے امریکہ کے ساتھ بالواسطہ بات چیت کے لیے تیار ہے۔

ایران دھمکی یا ڈرانے دھمکا نیکی وجہ سے مذاکرات نہیں کرے گا۔میڈیارپورٹس کے مطابق انہوں نے یوم القدس کی تقریبات کے موقع پر صحافیوں کو بیانات کے دوران انکشاف کیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیغام کے کچھ حصوں میں دھمکیاں تھیں۔تاہم انہوں نے زور دے کر کہا کہ ایرانی عوام سے دھمکیوں کی زبان میں بات کرنا بے سود ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اس پیغام کا بغور مطالعہ کیا۔ اس کی مختلف جہتوں پر تبادلہ خیال کیا، اور اس کا مناسب جواب امریکی فریق تک پہنچایا۔

عباس عراقچی نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ سفارت کاری کے لیے ایک کھڑکی کھولنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ٹرمپ کے پیغام کے بارے میں افشا ہونے والی رپورٹس کے بارے میں عراقچی نے ان کی صداقت کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ گردش کرنے والی ہر چیز مفروضوں اور قیاس آرائیوں پر مبنی ہے۔کچھ رپورٹس میں بتایا گیا کہ امریکی صدر نے فروری کے آخر میں ایرانی سپریم لیڈر کو بھیجے گئے خط کا جواب دینے کے لیے تہران کو دو ماہ کا وقت دیا تھا۔

جبکہ ایرانی حکام بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ دھمکی کے تحت مذاکرات نہیں کریں گے۔ تاہم انہوں نے بالواسطہ مذاکرات کے امکان کا اشارہ دیا۔یہ بات قابل غور ہے کہ امریکی صدر نے اپنی پہلی مدت کے دوران 2018 میں جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور تہران پر سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں۔گذشتہ فروری میں اس نے ایران پر زیادہ سے زیادہ دبا کی پالیسی کو دوبارہ نافذ کیا، جس میں اس کی تیل کی برآمدات کو مکمل طور پر روکنے کی کوششیں شامل ہیں۔

اس بات کے باوجود کہ وہ ایک نئے جوہری معاہدے کا خواہاں ہے۔غور طلب ہے کہ گذشتہ نومبر سے اسرائیل نے امریکہ اور فرانس کے تعاون سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں جاری رکھی ہوئی ہیں، جس کی نگرانی امریکہ-فرانسیسی-اقوام متحدہ کی کمیٹی کرے گی۔