ٹرمپ دور

ٹرمپ دور کی سرحدی پالیسی کو منسوخ کرنے پر غور کا امکان

واشنگٹن (ر پورٹنگ آن لائن)امریکی سپریم کورٹ نے اس بات پر غور کرنے پر اتفاق کیا ہے کہ کیا ٹرمپ کے دور کی متنازع سرحدی پالیسی کو موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن ختم کر سکتے ہیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق مذکورہ متنازع پالیسی پناہ کے متلاشیوں کو ان کے کیس کا جائزہ لینے جانے کے دوران امریکا میں داخلے سے روکتی ہے۔ڈیموکریٹک صدر کی انتظامیہ نے دسمبر میں قدامت پسندی کی جانب جھکا رکھنے والی ہائی کورٹ سے اپیل کورٹس کے فیصلوں پر نظرثانی کرنے کو کہا تھا جس نے پچھلی حکومت کے 2019 میں نافذ کیے گئے مائیگریشن پروگرام کو برقرار رکھا ہے۔اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ری مین اِن میکسیکو(میکسیکو میں رہیں)پروگرام کے تحت کئی ہزار غیر میکسیکن پناہ کے متلاشیوں کو ان کی درخواستوں کے نتائج تک سرحد پر واپس بھیج دیا گیا تھا جن میں سے زیادہ تر کا تعلق وسطی امریکا سے ہے۔

جنوری2021میں عہدہ سنبھالنے کے بعد سے جو بائیڈن نے بہتر انسانی امیگریشن پالیسی کا وعدہ کیا ہے اور اس پروگرام کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے جسے سرکاری طور پر مائیگرنٹ پروٹیکشن پروٹوکولز (ایم پی پی)کہا جاتا ہے۔تاہم ان کوششوں کو امریکی عدالتی نظام میں دھچکا لگا ہے کیونکہ دسمبر میں اپیل کورٹ نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ یہ پروگرام جاری رہنا چاہیے۔

سپریم کورٹ سے اس کیس کا جائزہ لینے کی درخواست میں محکمہ انصاف نے مقف اختیار کیا کہ یہ پروگرام تارکین وطن کو ناقابل قبول خطرات سے دوچار کرتا ہے اور عدالت کے سابقہ فیصلے قانون کی غلط تشریحات پر مبنی تھے۔عدالتی دستاویزات کے مطابق سپریم کورٹ، اپریل کے اوائل میں اس کیس پر غور کرے گی جبکہ موسم گرما میں اس کا فیصلہ متوقع ہے۔امریکی امیگریشن کونسل کے مطابق جنوری 2019 اور دسمبر 2020 کے درمیان کم از کم 70 ہزار پناہ گزینوں کو پروگرام کے تحت واپس بھیج دیا گیا تھا، جن میں سے زیادہ تر وسطی امریکا سے تھے۔کونسل کے مطابق اس کے نتیجے میں ایک انسانی بحران پیدا ہوا جسے کورونا وبا نے مزید بڑھا دیا۔