اسلام آ باد (رپورٹنگ آن لائن ) پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے 2 سال مکمل ہونے پر وفاقی حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے وفاقی وزرا، مشیر خزانہ اور معاون خصوصی نے کہا ہے کہ اس موڑ تک پہنچ گئے جہاں سے ہمارا اچھا وقت شروع ہوگیا ہے،
عمران خان نے دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کو ختم کرکے درست اور غلط کی سیاست شروع کی، سیاست کا مقصد فلاحی ریاست کا قیام ہے، اپنی کامیابیوں کو دیکھنے کے لیے دائمی حریف کے اغراض و مقاصد اور اپنی کوششوں کو دیکھنا ہوگا، چین ہمارا آزمایا ہوا دوست ہے جس کے ساتھ ہمارے اسٹریٹیجک شراکت داری رہی ہے، ہمیں دیکھنا ہے کہ پاکستان اور چین کے دیرینہ تعلقات کو مزید مستحکم کس طرح کیا جائے،
اس کی ایک زندہ مثال سی پیک 2 ہے ، یورپیئن یونین بھی پاکستان کا ایک بہت بڑا تجارتی شراکت دار ہے جس کے ساتھ نیا اسٹریٹیجک منصوبہ طے پایا، ہم نے کوشش کی کہ اسلامو فوبیا کے حوالے سے مسلمان ملکوں میں انڈراسٹینڈنگ کی جائے، دنیا نے افغانستان کا فوجی حل تلاش کرنے کے لیے کھربوں ڈالر خرچ کر ڈالے، ساری دنیا ہمارے نقطہ نظر کو تسلیم اور افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کی معترف ہے، کشمیر کا مسئلہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا پاکستان، اسے عمران خان کی حکومت میں اسے بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا گیا،
ایک سال میں 3 مرتبہ سلامتی کونسل میں کشمیر کا مسئلہ زیر بحث آیا، حکومت آئی تو کمزور معیشت کوسہارا دینا تھا اور ہم نے مشکل حالات میں بڑے فیصلے کیے، ہمیں ماضی کے قرضوں کا بوجھ بھی ہلکا کرنا پڑا، حکومت نے ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے مراعات دیں، ڈھائی سو ارب روپے کورونامتاثرین میں تقسیم ہوئے، ملک سے اسمگل شدہ فون ختم کیے گئے، دو سال میں سیمنٹ کی سیل 41فیصد بڑھی ہے، حکومت نے امپورٹ کو کم اور ایکسپورٹ پر زیادہ توجہ دی، دو سال قبل ہمیں مختلف چیلنجز کا سامنا رہا اور معیشت کی بہتری ہماری اولین ترجیح تھی۔
حکومت کی کوشش تھی دیہاڑی دار اورمستحق افراد کوریلیف دیا جائے، بل گیٹس نے پاکستان اور بھارت کا کورونا کیسز سے متعلق موازنہ کیا۔ کورونا سے نمٹنے کےلیے پاکستان کی حکمت عملی کی تعریف کی گئی ، ایران میں کورونا سے پاکستان کی نسبت 20فیصد اموات ہوئیں،وزیراعظم نے 2سال میں بالاکوٹ، بھارت، کورونا اورکمزور معیشت جیسے چیلنجزکاسامنا کیا، احساس کفالت پروگرام کے تحت 70لاکھ مستحقین کوماہانہ وظیفہ دیا جا رہا ہے۔
بلاسود قرضے دینے کامنصوبہ متعارف کرایا گیا۔ احساس لنگر خانوں پرتوجہ دی گئی۔ تفصیلات کے مطابق سال 2018 کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی )کی حکومت 18 اگست 2018 کو تشکیل دی گئی تھی اور عمران خان نے بطور وزیراعظم حلف اٹھایا تھا۔ حکومت کو 2 سال مکمل ہونے پر وفاقی حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے وفاقی وزرا، مشیر خزانہ اور معاون خصوصی نے مشترکہ نیوز بریفنگ کی جس میں وزیر اطلاعات شبلی فراز، وزیر اقتصادیات حماد اظہر، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور معاون خصوصی برائے تخفیف غربت ثانیہ نشتر نے شرکت کی۔ نیوز بریفنگ میں گفتگو کرتے ہوئے وزیراطلاعات شبلی فراز کہا کہ عمران خان نے دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کو ختم کرکے درست اور غلط کی سیاست شروع کی یہی بیانیہ ہم لے کر چل رہے ہیں کیوں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ سیاست کا مقصد فلاحی ریاست کا قیام ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے بنیادی مقاصد کو اپنا ہدف بنائیں، ہم وہ ریاست بنائیں جس میں عوام کی خدمت پہلی ترجیح ہو۔
شبلی فراز نے کہا کہ عمران خان ایک غریب پرور شخص ہیں جن کی یہ سوچ ہے کہ ملک کو کس طرح آگے لے جایا جائے اور کس طرح ملک کو فلاحی ریاست بنایا جاسکے اور 2018 میں ہماری حکومت بننے کے بعد ان اہداف کا حصول ممکن ہوا جبکہ ہماری تمام پالیسیاں بھی اسی سوچ کے گرد گھومتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام کے مفادات پر اپنے مفاد کو ترجیح دے کر سیاست کو پیشہ بنادیا گیا تھا جسے عوام نے مسترد کردیا ہے۔ شبلی فراز کا کہنا تھا کہ وزارت اطلاعات کے تناظر میں ہمارا چیلنج صرف یہ نہیں کہ حکومت کی کامیابیوں کی تشہیر کی جائے بلکہ ہمیں اندرونی اور بیرونی محاذ پر لڑنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ففتھ جنریشن وار چل رہی ہے دشمن ہمیں ہر طرح کا نقصان پہنچانا چاہے ہیں، ہماری معیشت تباہ کرنا، ملک میں ناامیدی پھیلانا چاہتا ہے جس سے نمٹنے کے لیے وزارت اطلاعات عمران خان کی قیادت میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی۔
وزیر اطلاعات نے کہا کہ یہ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا کا دور ہے جس میں ہر پاکستانی صحافی بن گیا ہے اب ہمیں یہ جنگ پورے ملک کی سطح پر لڑنی ہے جس میں ہر پاکستانی شریک ہوگا جس میں ہم کامیاب ہوں گے۔ نیوز بریفنگ میں وزارت خارجہ کی کارکردگی سے آگاہ کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اپنی کامیابیوں کو دیکھنے کے لیے دائمی حریف کے اغراض و مقاصد اور اپنی کوششوں کو دیکھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی پالیسی رہی ہے کہ پاکستان کو سفارتی تنہائی کا شکار کیا جائے اور ہماری کوشش یہ تھی کہ پاکستان کی مثر نمائندگی کریں کیوں کہ گزشتہ ادواروں کے دوران ایک عرصے وزیر خارجہ ہی موجود نہیں تھا جس کی وجہ سے نبہت سے فورم پر ہمارا نقطہ نظر پیش ہی نہیں ہوپا تھا۔
لہذا ہماری کوشش تھی کہ ہمارے دیرینہ تعلقات اور دوستیوں کو نئی جہت دی جائے اور نئے سمجھوتوں کو فروغ دیں جس کی وجہ سے بھارت کی پاکستان کو تنہا کرنے کی پالیسی میں ناکامی ہوئی اور پاکستان کامیاب رہا اور جنوبی ایشیا کی تمام رکن ممالک بھارت کے توسیع پسندانہ ڈیزائنز پر معترض ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان تو کہتا ہی تھا لیکن آج چین بھارت کے توسیع پسندانہ منصوبوں پر سوال اٹھارہا ہے اور لداخ میں جو ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے، اسی طرح نیپال کی پارلیمان سے منظور ہونے والی قراردادیں آپ کے سامنے ہیں، بنگلہ دیش جسے بھارتی کیمپ کا تصور کیا جاتا تھا لیکن جب سے شہریت قانون آیا وہاں ایک سرد مہری دکھائی دے رہی ہے۔
شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ چین ہمارا آزمایا ہوا دوست ہے جس کے ساتھ ہمارے اسٹریٹیجک شراکت داری رہی ہے لیکن ہم نے کوشش کی کہ ان اسٹریٹیجک شراکت داری کو معاشی شراکت داری میں تبدیل کیا جائے کیوں کہ ہم سمجھتے ہیں ہمارا مشترکہ مقصد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا بدل رہی ہے جس میں ہمیں دیکھنا ہے کہ پاکستان اور چین کے دیرینہ تعلقات کو مزید مستحکم کس طرح کیا جائے اور اس کی ایک زندہ مثال سی پیک 2 ہے جس میں ہم نے واضح اہداف متعین کیے ہیں جس میں صنعتی انقلاب، زرعی پیدوار میں فروغ، تخفیف غربت اور انسانی وسائل کی ترقی شامل ہے۔
اسی طرح ترکی کے ساتھ بھی پاکستان کے بہت اچھے تعلقات ہیں جہاں وزیراعظم کے دورے کے موقع پر نیا معاشی اور مالیاتی فریم ورک تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا جس کے تحت تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ ملے اور وہ اب حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یورپیئن یونین پاکستان کا ایک بہت بڑا تجارتی شراکت دار ہے جس کے ساتھ نیا اسٹریٹیجک منصوبہ طے پایا، علاوہ ازیں افریقہ پر ہماری توجہ نہیں تھی لیکن تعلقات بہت اچھے تھے چنانچہ ہم نے وہاں تجارت اور معاشی سرگرمیاں بڑھانے کی منصوبہ بندی کی۔
وزیر خارجہ نے کہا وزیراعظم عمران خان نے پوری ترقی پذیر دنیا کے لیے قرضوں میں ریلیف کا خیال پیش کیا جس پر جی 20 نے کچھ اقدامات کیے اور نیویارک میں ایک پارٹنر شپ تشکیل دی گئی تا کہ ہم مالی اسپیس کے لیے سمجھوتوں کو مزید فروغ دیں۔ بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے کوشش کی کہ اسلامو فوبیا کے حوالے سے مسلمان ملکوں میں انڈراسٹینڈنگ کی جائے تا کہ تمام مسلمان ممالک ایک ساتھ مل کر اسلامو فوبیا کا مقابلہ کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا نے افغانستان کا فوجی حل تلاش کرنے کے لیے کھربوں ڈالر خرچ کر ڈالے لیکن وزیراعظم مسلسل کہتے رہے کہ افغانستان کا صرف سیاسی حل ممکن ہے بالآخر دنیا قائل ہوئی اور آج ساری دنیا ہمارے نقطہ نظر کو تسلیم اور افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کی معترف ہے اور ہم پر امید ہیں کہ بین الافغان مذاکرات کا جلد آغاز ہوگا جس سے امن کو فروغ ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا پاکستان، لیکن اسے عمران خان کی حکومت میں اسے بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا گیا اور آج کوئی ایسا بین الاقوامی فورم یا موقع نہیں جسے ہم نے کشمیریوں اور پاکستان کے نقطہ نظر کو اجاگر کرنے کے لیے استعمال نہ کیا ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک سال میں 3 مرتبہ سلامتی کونسل میں کشمیر کا مسئلہ زیر بحث آیا اور اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کمشنر نے کشمیر پر 2 رپورٹس شائع کیں جس میں بھارت کو بے نقاب کیا گیا ہے، او آئی سی کے 4 اجلاس ہوئے جس میں کشمیر کے مسئلے پر بات ہوئی۔ مشیز خزانہ حفیظ شیخ نے اپنی کارکردگی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے بتایا کہ حکومت آئی تو کمزور معیشت کوسہارا دینا تھا اور ہم نے مشکل حالات میں بڑے فیصلے کیے۔ ہمیں ماضی کے قرضوں کا بوجھ بھی ہلکا کرنا پڑا۔ حکومت نے ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے مراعات دیں۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بار حکومت نے اخراجات میں کمی کی۔
حکومت رواں سال کوئی سپلمنٹری گرانٹ کسی وزارت کو نہیں دی۔ 20 ارب کا کرنٹ اکاونٹ خسارہ تھا اورڈیفالٹ کا خدشہ تھا لیکن عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک نے مدد کی۔ بیرونی خسارے کو 20 ارب ڈالر سے کم کر کے 3 ارب ڈالر پر لایا گیا۔ کابینہ کی تنخواہیں کم کی گئی اور فوج کے اخراجات کو منجمد کیا گیا۔ مشیر خزانہ نے بتایا کہ وزیر اعظم ہاس کے اخراجات کو کم کیا گیا۔ حکومت نے ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے مراعات دیں۔
ٹیکس نظام میں بہتری کے لیے حکومت نے بہترین کام کیے۔ انہوں نے بتایا کہ ڈھائی سو ارب روپے کورونامتاثرین میں تقسیم ہوئے۔ حکومت نے بلاتعصب ایک کروڑ 60لاکھ پاکستانیوں کوامداد دی۔ دو سال کے دوران حکومت نے 5ہزار ارب روپے کے قرضے واپس کیے اور زراعت کےلیے 280ارب روپے کا پیکج دیا۔وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر نے بتایا کہ حکومت نے کورونا صورتحال میں بھی ادویات کی ترسیل کا سلسلہ جاری رکھا، ٹیکسز کی شرح کوکم کیاگیا۔ تعمیراتی شعبے کے لیے پیکج دیا، کفایت شعار پالیسی کے تحت کچھ اداروں کو مختلف اداروں میں ضم کیاگیا، ہم نے پاکستان اسٹیل مل سے متعلق اقدام کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ملک سے اسمگل شدہ فون ختم کیے گئے، دو سال میں سیمنٹ کی سیل 41فیصد بڑھی ہے اور اس وقت ایکسپورٹ گروتھ 6فیصد ہے۔
حکومت نے امپورٹ کو کم اور ایکسپورٹ پر زیادہ توجہ دی۔ کورونا وائرس کے دوران کاروباری شعبے کو حکومت نے ریلیف دیا اور چھوٹے کاروباروں کے 3 ماہ کے بجلی کے بل معاف کیے گئے۔ ود ہولڈنگ ٹیکس میں کمی لائی گئی۔ الیکٹرک وہیکل اور موبائل مینوفیکچرنگ کی پالیسی بنائی گئی۔ وزیر ترقی و منصوبہ بندی اسد عمر نے بتایا کہ دو سال قبل ہمیں مختلف چیلنجز کا سامنا رہا اور معیشت کی بہتری ہماری اولین ترجیح تھی۔ حکومت کی کوشش تھی دیہاڑی دار اورمستحق افراد کوریلیف دیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے معیشت کودھچکہ لگا۔ بل گیٹس نے پاکستان اور بھارت کا کورونا کیسز سے متعلق موازنہ کیا۔
کورونا سے نمٹنے کےلیے پاکستان کی حکمت عملی کی تعریف کی گئی۔ اسمارٹ لاک ڈاون کی حکمت عملی کی دنیابھرمیں تعریف کی گئی، ایران میں کورونا سے پاکستان کی نسبت 20فیصد اموات ہوئیں۔ اسد عمر کا کہنا تھا کہ پاکستان کی کامیاب پالیسیوں کے باعث کورونا پرقابو پایاگیا۔ ہم نے کورونا سے نمٹنے کےلیے بروقت فیصلے کیے۔ حکومت کی کوشش تھی دیہاڑی دار اورمستحق افراد کوریلیف دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان ملکی مفاد کےلیے ساتھ چلنے کی بات کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے 2سال میں بالاکوٹ، بھارت، کورونا اورکمزور معیشت جیسے چیلنجزکاسامنا کیا۔
معاون خصوصی ثانیہ نشتر نے بتایا کہ احساس کفالت پروگرام بہترین منصوبہ تھا جس کی 15 ماہ پہل ےمنظوری ہوئی۔ احساس کفالت پروگرام کے تحت شفاف طریقے سے مالی امداد تقسیم کی ہوئی۔ ثانیہ نشتر نے بتایا کہ احساس کفالت پروگرام کے تحت 70لاکھ مستحقین کوماہانہ وظیفہ دیا جا رہا ہے۔ بلاسود قرضے دینے کامنصوبہ متعارف کرایا گیا۔ احساس لنگر خانوں پرتوجہ دی گئی اور احساس اسکالرشپس پروگرام متعارف کرایا گیا۔
احساس ایمرجنسی کیش پروگرام شفاف طریقے سے جاری رہا۔ سندھ کو آبادی کے تناسب سے ترجیح دی گئی۔ کارکردگی رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق دو سال میں 28 ایکٹس بنے اور 39 آرڈیننس جاری ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق وزیراعظم آفس سے کوئی ریڈ لیٹر وزارت کو موصول نہیں ہوا۔ ای آفس نامی سافٹ ویئر تیار ہے لیکن فنڈزکی عدم دستیابی کے باعث کمپیوٹرز دستیاب نہیں۔ گزشتہ دو سال کے دوران وزارت قانون نے وفاقی حکومت سے متعلقہ9ہزار 450 مقدمات کی مختلف عدالتوں میں پیروی کی۔
814سپریم کورٹ، 6 ہزار 79 ہائیکورٹس اور دیگر کیسز دوسری عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ انتظامی ٹربیونلز اور خصوصی عدالتوں میں ججز تعینات کیے گئے۔ مختلف وزارتوں اور محکموں کو 600 مختلف امور پر قانونی رائے فراہم کی۔ مختلف اداروں کے رولز کے جائزہ کےلیے 4 ہزار 699 درخواستیں نمٹائی گئیں۔ رپورٹ کے مطابق ڈرافٹنگ ونگ کو پارلیمان سے 345 پرائیوٹ ممبر بل جائزے کےلیے موصول ہوئے۔
ملک بھر میں نئی خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے۔ دو سال میں 641 بین الاقوامی معاہدے اور یادداشتوں کا جائزہ لیا گیا جب کہ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کی توسیع کا کام بھی جاری ہے۔