لاہور( رپورٹنگ آن لائن) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما میاں جاوید لطیف نے کہا ہے کہ نواز شریف اس ملک کی ہی نہیں خطے کی بھی ضرورت بنے ہوئے ہیں ،نواز شریف چاہتے تھے تحریک عدم اعتماد کے بعد ملک میں نئے انتخابات ہوں ، اس کے بعد کچھ مجبوریاں تھی یا پھر ہمیں پھنسایا گیا،عمران خان کے دور میں ادارے نہیں بلکہ شخصیات ایک پیج پر تھیں آج ادارے ایک پیج پر ہیں.
شہباز شریف بھی چاہتے تھے ہم انتخابات کے بعد مرکز میں حکومت نہ بنائیں لیکن جب پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے حکومت نہ بنائی اور ملک کے انتہائی نازک حالات کی وجہ سے ہم نے حکومت بنانے کا فیصلہ کیا ۔ ایک انٹر ویو میں انہوں نے کہا کہ ملک میں جس طرح کا بیگاڑ پیدا ہو رہا تھا ، عالمی مالیاتی اداروں سے فاصلے بڑھ رہے تھے ، ادارے دفاعی لحاظ سے کمزور ہو رہے تھے تو ،پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار ہو رہا تھا تو نواز شریف نے باقی جماعتوں کی مشاورت سے تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا اور یہ اتفاق کیا گیا کہ موجودہ رجیم سے جان چھڑانی چاہیے ، اس وقت ایک پیج اداروں کا نہیں تھا بلکہ شخصیات کا تھا ،جو اداروں کی پالیسی بناتے تھے وہ عدلیہ ہو ،اسٹیبلشمنٹ ہو یا پارلیمان ہو سب اکٹھے ہو کر اپنی خواہشات اورضروریات کے لئے ملک کو قربان کر رہے تھے ،کمزور کر رہے تھے .
اس کو دیکھتے ہوئے تمام سیاسی جماعوں نے فیصلہ کیا کہ عدم اعتماد جمہوری طریقہ ہے ۔میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ یا باقی ادارے چاہتے تو تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ ان اداروں نے جنہوں نے 2018میں حکومت بنا کر دی تھی وہ غیر جانبدار ہو گئے ۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی یہ سوچ تھی کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد انتخابات کا اعلان کر دیا جائے اور باقی 18ماہ کی حکومت ایجنڈے کا حصہ نہیں تھا ۔ بعد میں مجبوریاں تھی یا پھر ہمیں پھنسایا گیا ۔
تحریک عدم اعتماد تک آزاد تھے لیکن بعد میں فیض حمید ،جنرل قمر جاوید باجود اورجسٹس ثاقب نثار کی جو باقیات تھیںانہوں نے اٹھارہ ماہ حکومت کرنے پر مجبور کیا ۔ انہوں نے کہا کہ اگر ادارے آئین قانون کی حدود و قیود میں رہیں تو ملک ترقی کر سکتا ہے ،عمران خان کے دور میں ادارے نہیں بلکہ شخصیات ایک پیج پر تھیں لیکن آج ادارے ایک پیج پر ہیں اور میں دعا گو ہوں یہ ایک پیج پر ہی رہیں ۔ انہوں نے کہا کہ 12فروری2024سے پہلے جب وزیر اعظم کے عہدے کا حلف نہیں ہوا تھا تو شہباز شریف نے مجھے بلایا اور مجھ سے پوچھا میں جو میڈیا پر بات کرتا ہوں اس کی بیگ گرائونڈ کیا ہے ۔
میں نے اس وقت شہباز شریف سے کہا تھاکہ آپ نے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب بہترین کام کیا ہے آپ کو پنجاب میں کام کرنا چاہیے، ہمیں مرکز میں حکومت نہیں بنانی چاہیے ۔اس پر شہباز شریف نے بھی کہا تھاکہ میرے دل کی بھی یہی خواہش ہے اور میں قائد محترم نواز شریف سے بات کرتا ہوں ۔ میں نے بھی نواز شریف کے گوش گزار کیا جس کے بعد ہماری جماعت کے ترجمان کی طرف سے یہ بیان آ گیا کہ ہم مرکز میں حکومت نہیں بنائیں گے۔ جب پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی نے مرکز میں حکومت بنانے سے انکار کیا تو اس وقت ملک کے جو حالات تھے وہ سب کے سامنے تھے .
مالیاتی اداروں کے حو الے سے جو حالات تھی وہ بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں تھے ،ہم سفارتی تنہائی کا شکار تھے ، ملک میں بھنور میں پھنسا ہوا تھا اور پھر لیگ (ن) نے حکومت بنائی ۔انہوںنے کہا کہ نواز شریف کے نام پر ساری جماعت کو تو ووٹ ملتاہے لیکن یہ کیسا سوال ہے کہ نواز شریف کو ووٹ نہیں ملے ۔ نواز شریف کو ایک حلقے سے ہروا دیا گیا جبکہ ایک حلقے میں جیت کو فوری مشکوک بنا دیا گیا ۔انہوں نے کہا کہ میں واضح کہتا رہا ہوں جو پالیسی ساز ہیں جو ترجمان ہیں وہ کھلے دل سے بات کریں کہ ہم نے نواز شریف سے زیادتی کی ، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ معذرت کریں ۔ میاں جاوید لطیف نے کہا کہ نواز شریف اس ملک ہی نہیں بلکہ اس خطے کی ضرورت بنے ہوئے ہیں .
اگر اس خطے میں امن قائم کرنا ہے پاکستان نے دنیا میں اس خطے میں بہتر کردار ادا کرنا ہے جو موقع بھارتی جنگ کے بعد ملا ہوا ہے اگر اس سے صحیح معنوں میں فائدہ اٹھانا چاہتا ہے تو سب کو نواز شریف کے پاس جانا ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کا نواز شریف سے کوئی موازنہ نہیں بنتا ، بلکہ یہ موازنہ سخت نا انصافی اور زیادتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ حقیقت کے اندر پاکستان میں غیر ملکی قوتیں بھی اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتی آئی ہیں کبھی وہ ملک کا دفاع نا قابل تسخیر بنانے والوں کے خلاف اس کا استعمال کرتی ہیں اور آج کسی کی سہولت کے لئے اس کا استعمال ہو رہا ہے ۔