موٹر برانچ

موٹر برانچ علی کمپلیکس میں نیب کیسوں میں ملوث گاڑیاں ری اوپن کرکے نئے سرے سے رجسٹرڈکیئے جانے کا انکشاف سامنے آگیا۔

رپورٹنگ آن لائن۔

ایکسائز ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس کنٹرول ڈیپارٹمنٹ لاہور ریجن سی کی علی کمپلیکس میں واقع موٹربرانچ سے نیب لاہور کے پاس زیرالتوا کیس میں ملوث گاڑیاں ری اوپن کی جانے لگی ہیں۔ ذرائع کے مطابق ایم آر اے ناظم اسد اور ماتحت انسپکٹر ماسٹر فاروق نے نیب لاہور کے پاس زیر التوا 724گاڑیوں کی انکوائری میں شامل گاڑی نمبر ADX 461 ٹیوٹا ایکوا ہائبرڈ گاڑی کو ری اوپن کرنے کے بعد رجسٹرڈ بھی کرڈالا ہے۔
موٹر برانچ
ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ ملازمین ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن نے بھاری رشوت لے کر گاڑی ری اوپن کی ہے حالانکہ نہ تو نیب لاہور نے اس گاڑی کو کلیرنس دے رکھی ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں نیب کی طرف سے ایم آر اے کو گاڑی ری اوپن کرنے کا لیٹر لکھا گیا ہے۔
موٹر برانچ
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ مذکورہ ملازمین نے نیب کیس میں شامل 724گاڑیوں کو ناجائز آمدن کا ذریعہ بنا لیا ہے اور لاکھوں روپے رشوت لے کریہ گاڑیاں یکے بعد دیگر ری اوپن کی جارہی ہیں۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ری اوپن کی جانے والی کئی گاڑیاں محکمے کے بعض اعلی افسروں کے کہنے پر بھی ری اوپن کی گئی ہیں اور اس سلسلے میں ری اوپن کے پراسیس کے دوران کمپیوٹر ریمارکس میں متعلقہ افسروں کے نام بھی تحریر کیئےء جاتے ہیں۔

علم میں آیا ہے کہ 13اگست 2021کو اشتیاق نامی ڈیٹا انٹری آپریٹر نے گاڑی نمبر ADX 461 ٹیوٹا ایکوا ہائبرڈ کا چالان نکالا گیا اور 19اگست کو اس گاڑی کی نمبر پلیٹس جاری کردی گئیں۔ تاہم اس گاڑی کی رجسٹریشن مکمل نہ ہوسکی اور 30اپریل 2022کو موٹر برانچ کے انسپکٹر طارق نے ڈائریکٹر ایکسائز لاہور ریجن سی کے لیٹر نمبر 363-Aمورخہ 30اپریل 2022کی روشنی میں اس گاڑی کا سٹیس معطل کردیا۔یہ گاڑی بعدازاں اسی سٹیس میں پڑی رہی کہ اسی دوران 2023میں نیب لاہور نے 724گاڑیوں کی جعلی اور بوگس دستایزات کے تحت رجسٹریشن کے الزام میں انکوائری شروع کردی اور مذکورہ گاڑی بھی اسی فہرست کا حصہ بنائی گئی۔26جولائی 2024کو اس وقت کے ایم آراے علی کمپلیکس ندیم محی الدین نے کمپیوٹرمیں ریمارکس درج کیئے کہ اس گاڑی کی بابت فائل،دستاویزات ابھی تک فراہم نہیں کیئے گئےء۔

تاہم 11مارچ 2025 اور پھر 13مارچ 2025کوکو انسپکٹر موٹر برانچ علی کمپلیکس ماسٹر فاروق نے گاڑی نمبر ADX 461 کو ری اوپن کرتے ہوئے کمپیوٹر میں ریمارکس دیئے گئے ہیں کہ ایکسائز انسپکٹر امجد بھٹی نے اس گاڑی کی دستایزات چیک کیں اور ویری فکیشن کے لیے کسٹمز حکام کو لیٹر لکھا جبکہ 14مارچ کو گاڑی کو ری اوپن کرنے کے حتمی منظوری دیتے ہوئے ایم آر اے ناظم اسد نے بھی یہی ریمارکس کاپی کرکے پیسٹ کردیئے۔اور اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ مذکورہ گاڑی رجسٹرڈ ہی نہ تھی بلکہ اس کی حتمی رجسٹریشن 2021سے التوا میں تھی۔ مذکورہ گاڑی کی دستاویزات موٹر برانچ علی کمپلیکس میں تعینات انسپکٹر امجد بھٹی نے چیک کیئے اور کسٹم حکام کو تصدیق کے لیے خط بھی لکھا لیکن گاڑی اپنے لاگ ان سے ری اوپن کرنے کی بجائے انسپکٹر ماسٹر فاروق سے کیوں ری اوپن کروائی۔ایم آر اے ناظم اسد نے مذکورہ گاڑی کو نہ صرف کمپیوٹر میں بحال کیا بلکہ اس غیر حتمی طورپر رجسٹرڈ گاڑی کی رجسٹریشن کا عمل بھی 14مارچ کو مکمل کرتے ہوئے اسے مکمل رجسٹرڈ وہیکل کا سٹیٹس دیدیا۔

اس سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے ایم آر اے ناظم اسد کا کہنا تھا کہ وہ غلط کام نہیں کرتے رشوت کا الزام بے بنیاد ہے گاڑی قانون کے مطابق ری اوپن اور رجسٹرڈ کی گئی ہے