مقبوضہ کشمیر

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید بے گناہ نوجوانوں کے والدین کی دہائی عالمی میڈیا میں پہنچ گئی

سرینگر (رپورٹنگ آن لائن) مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں قتل ہونے والے بے گناہ نوجوانوں کے والدین کی دہائی عالمی میڈیا میں بھی پہنچ گئی مگر بے ضمیر بھارتی ریاست اب تک ٹس سے مس نہ ہوئی،30 دسمبر 2020 کو جعلی انکاونٹر میں شہید کیے گئے کشمیری نوجوانوں کے لواحقین اب تک انصاف تو درکنار اپنے پیاروں کی میتوں کے منتظر ہیں، اس انسانیت سوز واقعے میں تین نوجوان طلباء اطہر مشتاق وانی، زبیر احمد لون اور اعجاز مقبول کو سری نگر کے مضافاتی علاقے لاوے پورا میں بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔

الجزیرہ ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے مقتول اطہر مشتاق وانی کے والد مشتاق احمد وانی نے کہا کہ انہوں نے اپنے آبائی گاوں میں ایک خالی قبر کھود رکھی ہے اور وہ اب ساری عمر اپنے بچے کی میت کا انتظار کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرے معصوم بیٹے کو قتل سے پہلے بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا اور ایسا سلوک کیا گیا جو جانوروں سے بھی روا نہیں رکھا جاتا۔زبیر شہید کے والد غلام محمد لون کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے کو کبھی بھی پولیس نے طلب نہیں کیا تھا اور وہ تو بس اپنے کام میں ہی مصروف رہتا تھا۔

زبیر شہید کی والدہ نے کہا کہ میں اپنے لال کی قبر تک نہیں دیکھ سکتی کہ اسے دور کہیں دفنا دیا گیا ہے ،میرا بیٹا میرے لیے سب کچھ تھا۔تیسرا مقتول اعجاز شہید تو ریڑھ کی ہڈی کے درد میں مبتلا تھا، اس کے چچا طارق احمد نے بتایا کہ اعجاز یونیورسٹی میں اپنے امتحان کی تیاری کرنے گیا تھا کہ اسے مار دیا گیا۔دوسری طرف پولیس کے ڈائریکٹر جنرل دلباغ سنگھ نے کمال ڈھٹائی سے کہا کہ کوئی وجہ نہیں کہ بھارتی فوج کی کارروائی کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے۔

قابض بھارتی فوج نے مقتولین کی نعشیں ان کے لواحقین کے حوالے کرنے سے اس لیے انکار کر دیا تھا کہ ایسا کرنے سے شہداءکے جنازوں کے ساتھ عوامی مظاہروں کا ڈر ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں اب تک ہزاروں ماورائے عدالت ہلاکتیں ہو چکی ہیں، اور بے شمار بے نام اجتماعی قبروں کا انکشاف ہو چکا ہے۔اس اندوہناک واقعے سے پہلے جولائی 2020 میں بھی بھارتی فوج نے تین بے گناہ کشمیری مزدوروں کو بھی اپنی سفاکی کا نشانہ بنایا تھا۔

کشمیری مسلمانوں کے ساتھ سات عشروں سے غیر انسانی سلوک کرنے والے بھارت کا مکروہ اور بھیانک چہرہ دنیا کے سامنے بالکل عیاں ہو چکا ہے اور مظلوم کشمیریوں کی آہیں دنیا بھر میں سنی جا رہی ہیں، ایک ہفتہ پہلے برطانوی پارلیمنٹ میں بھی مقبوضہ کشمیر پر زبردست بحث کی گئی کہ جس میں برطانوی پارلیمان کے ممبران نے کھل کر بھارتی ریاستی دہشت گردی اور کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی بھرپور مذمت کی۔

برطانوی قانون سازوں نے بھارت کے کھوکھلے دعوﺅں کو مسترد کر دیا کہ بھارتی کشمیر اور پنجاب میں مسلمانوں اور سکھوں کے ساتھ ریاستی ظلم و جبر اور قتل و غارتگری اس کا اندورنی معاملہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چھ لاکھ بھارتی فوجی ستر لاکھ کشمیریوں پر ستر سال سے زیادہ عرصے سے قابض ہیں کہ جہاں عورتوں کی عصمت دری، لوگوں کی بے جا حراست اور ماورائے عدالت ہلاکتیں عام ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صرف گزشتہ تیس برسوں میں 95000 سے زائد بے گناہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ اب تک سینکڑوں سیاسی رہنماء جموں و کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ 1978 کے کالے قانون کے تحت جیل میں ہیں۔ 400 معصوم بچے بھی زیر حراست ہیں۔اس کے علاوہ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد ہزاروں غیر کشمیری ہندووں کو کشمیر کا ڈومیسائل دیا جا چکا ہے اور یہ سلسلہ تیزی سے جاری ہے کہ جس کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کا خاتمہ ہے۔

ایک اور برطانوی قانون ساز کا کہنا تھا کہ حق خودارادیت تو درکنار اب کشمیری مسلمانوں کا اپنا وجود بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ بحث کے شرکاءکا کہنا تھا کہ دو جوہری طاقتوں کے درمیان یہ خطرناک تنازعہ پوری دنیا کے لیے باعث تشویش ہے۔