معلومات تک رسائی

معلومات تک رسائی کا محکمہ خود معلومات لیک کرنے لگا

نیوز رپورٹر۔۔۔

پنجاب انفارمیشن کمیشن صوبے میں دی پنجاب ٹرانسپیرنسی اینڈ رائیٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 کے تحت شہریوں کے معلومات تک رسائی کے حق کو یقینی بنانے کی کوشش کرتا ہے۔
معلومات تک رسائی
کمیشن کے چیف محبوب قادر شاہ جبکہ حسن اقبال اور سعید اختر انصاری ممبر ہیں۔تینوں کمشنر مجنجھے ہوئے اور اپنے کام کے ماہر ہیں اور کورونا جیسی وبا کے باوجود احسن طریقے سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ کمیشن کا ماتحت سٹاف عام شہریوں، سول سوسائٹی، صحافیوں اور وکلا کی طرف سے دائر کی جانے والی اپیلوں اور شکایات کے جواب میں ملنے والی معلومات مخصوص حلقوں کو فراہم کرتا ہے۔اور اس سلسلے میں چیف انفارمیشن کمشنر پنجاب محبوب قادر شاہ کو بعض وکلا اور صحافیوں کی طرف سے شکایات بھی ملی ہیں۔لیکن ان کا سٹاف اپنی روش چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔
معلومات تک رسائی
بتایا گیا ہے کہ کمیشن کے اہلکار مقامی اخبار کے رپورٹرآصف محمود نامی شخص کو معمول میں ایسی معلومات فراہم کرتے ہیں جو عام شہریوں، سول سوسائٹی، صحافیوں اور وکلا کی طرف سے دائر کی جانے والی اپیلوں اور شکایات کے جواب میں حاصل ہوتی ہیں۔جس پر یہ شخص معلومات کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کرتا ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پنجاب انفارمیشن کمیشن کی طرف سے یہ
” سہولت ” آصف اقبال کو ہی دستیاب ہے اور معمول میں ایسی معلومات سبھی اخباری کارکنان یا میڈیا پرسنز کو نہیں دی جاتیں

زرائع کے مطابق گزشتہ دنوں چیف انفارمیشن کمشنر پنجاب محبوب قادر شاہ کو ایڈووکیٹ شہباز اکمل جندران کی طرف سے بالمشافہ ملاقات میں زبانی طورپر درخواست کی گئی کہ ان کے دفتر سے معلومات لیک ہورہی ہے اور ان کی بعض زیر التوا اپیلوں اور کمپلینٹس کی معلومات متذکرہ بالا رپورٹر کو فراہم کہ گئیں ہیں جو کہ اصولی اور قانونی طورپر غلط ہے۔اس پر چیف انفارمیشن کمشنر پنجاب نے انہیں یقین دہانی کروائی تھی کہ آئیندہ اس امر کا خیال رکھا جائگا اور ان کی مطلوبہ معلومات لیک نہیں ہونگی۔لیکن چیف کمشنر کی زبانی یقین دہانی کے باوجود معلومات لیک ہوگئیں۔

جبکہ پنجاب انفارمیشن کمیشن کے اس فعل سے ٹرانسپیرنسی کا عمل سوالیہ نشان کی زد میں آگیا ہے۔کہ قانونی طورپر کسی شخص کو Oblige کرتے ہوئے دوسروں کی مطلوبہ معلومات دے سکتا ہے یا نہیں۔؟