شہباز اکمل جندران۔
انکشاف ہوا ہے کہ ایکسائز ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس کنٹرول ڈیپارٹمنٹ پنجاب کے ایک افسر نے مبینہ طورپر ناجائز مطالبہ نہ ماننے پر جونئیر کلرک کو نیب کیس میں پھنسا ڈالا ہے۔
باوثوق ذرائع کے مطابق ڈائریکٹر جنرل ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب کے دفتر سے ایک افسر نے مبینہ طور پر اپنے ایک فرنٹ میں کے ذریعے موٹر برانچ علی کمپلیکس کے جونئیر کلرک محمد اسحاق سے بھتہ مانگا اور کلرک مذکور کے لفٹ نہ کروانے پر اسے ایک گریڈ 17 کے افسر کا شریک ملزم بنا کر اس کے خلاف ریفرنس نیب کو بذریعہ سیکرٹری بھجوا دیا۔
جس کا ثبوت یہ بھی یے کہ ڈائریکٹوریٹ جنرل ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے مذکورہ افسر نے 728 امپورٹڈ وغیرہ گاڑیوں کی رجسٹریشن کا ریکارڈ اس وقت کے ایم آر اے علی کمپلیکس ملک محمد عظیم سے باربار مانگا اور ریکارڈ کی عدم فراہمی پر اس کے خلاف ڈرافٹ چارج شیٹ تیار کرکے اس وقت کے ڈائیریکٹر جنرل ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب ڈاکٹر آصف طفیل کے ذریعے صوبائی سیکرٹری کو ارسال کردی۔اور اسی دوران جونئیر کلرک محمد اسحاق سے فرنٹ میں کے ذریعے رابطہ کیا اور بھاری بھرکم ڈیمانڈ کر ڈالی۔جسے محمد اسحاق نے پورا نہ کیا تو مذکورہ افسر نے ڈرافٹ چارج شیٹ کی درستگی کی آڑ میں ایم آر اے ملک محمد عظیم کے ساتھ جونئیر کلرک محمد اسحاق کا نام بھی شامل کر دیا۔
حالانکہ مذکورہ دفتر میں کئی اور کمپیوٹر آپریٹر، انسپکٹر اور کلرک بھی فرائض انجام دیتے تھے اور 728 گاڑیوں میں سینکڑوں گاڑیوں کی رجسٹریشن کا پراسیس انہی ملازمین نے کیا۔اور ان گاڑیوں کی پراسسینگ میں جونیئر کلرک محمد اسحاق کا سرے سے کوئی تعلق تھا نہ ہی وہ ان گاڑیوں سمیت کسی بھی گاڑی کے ریکارڈنکا کسٹوڈین تھا نہ ہی کسی بھی گاڑی کے ریکارڈ کی فراہمی کا ذمہ دار تھا۔
لیکن اس کے باوجود ان میں سے کسی بھی اہلکار کا نام چارج شیٹ کا حصہ نہ بنایا گیا
اور بعدازاں اسی چارج شیٹ کی بنیاد پر 728 گاڑیوں کی رجسٹریشن کو بوگس قرار دیدیا گیا اور نیب کو ریفرنس ارسال کرتےہو قومی خزانے کو 4 سے5 ارب روپے کا نقصان بیان کر دیا۔
جونئیر کلرک محمد اسحاق کو پھنسا نے کے حوالے سے ترمیم شدہ ڈرافٹ چارج شیٹ منظر عام پر آ چکی ہے۔