لاہور (رپورٹنگ آن لائن) اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے کہا ہے کہ انتہاپسندی معاشرتی امن، قومی استحکام اور انسانی اقدار کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے، جس کے تدارک کے لیے ریاستی اداروں، سول سوسائٹی اور معاشرے کے تمام طبقات کو مشترکہ، مربوط اور مستقل کردار ادا کرنا ہوگا،پائیدار امن کے قیام کے لیے شواہد پر مبنی، جامع اور طویل المدتی حکمتِ عملی ناگزیر ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ”پنجاب سنٹر آف ایکسیلینس آن کاؤنٹرنگ وائلنٹ ایکسٹریمزم (CoEـCVE)” کے زیر اہتمام منعقدہ اسٹریٹجک پلاننگ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ جب ریاست اپنی آئینی اور انتظامی ذمہ داریاں مؤثر انداز میں ادا نہیں کرتی تو شدت پسند عناصر پیدا ہونے والے خلا سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ سپیکر ملک محمد احمد خاں نے کہا کہ نصابِ تعلیم میں انتہاپسندی کے انسداد، برداشت، رواداری اور آئینی شعور سے متعلق مضامین کی شمولیت ناگزیر ہے تاکہ بچوں اور نوجوانوں کی فکری و اخلاقی تربیت مثبت خطوط پر استوار کی جا سکے۔انہوں نے مزید کہا کہ مدارس، نوجوانوں، علما، میڈیا اور دیگر سماجی طبقات کی بامعنی شمولیت کے بغیر انتہاپسندی کے خاتمے کی کوششیں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکتیں۔ قومی بیانیے کے فروغ، سماجی ہم آہنگی کے استحکام اور ادارہ جاتی تعاون کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کے مابین مؤثر رابطہ اور اشتراکِ عمل ضروری ہے۔
ورکشاپ کے دوران اس امر پر اتفاق کیا گیا کہ ردِعمل پر مبنی اقدامات کے بجائے انسدادی حکمتِ عملی، سماجی ہم آہنگی اور ڈی ریڈیکلائزیشن پر مبنی پالیسی اپنائی جائے۔ آخر میں سپیکر ملک محمد احمد خاں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پنجاب میں پُرتشدد انتہاپسندی کی روک تھام کے لیے مرتب کی گئی پانچ سالہ حکمتِ عملی کو تمام متعلقہ اداروں کے اشتراک سے مؤثر انداز میں نافذ کیا جائے گا، تاکہ صوبے میں پائیدار امن، سماجی استحکام اور بین الادارہ جاتی ہم آہنگی کیکو فروغ دیا جا سکے تقریب ہوم سیکرٹری پنجاب ڈاکٹر احمد جاوید قاضی، ڈپٹی کوآرڈینیشن آفیسر پنجاب CoEـCVE ڈاکٹر احمد خاور شہزاد، نیشنل کوآرڈینیٹر نیکٹا جاوید احمد ڈوگر اور سابق سینیٹر بیرسٹر ڈاکٹر محمد علی سیف شامل تھے۔
بعدازاں نجی یونیورسٹی میں منعقدہ عوامی سطح پر جمہوریت کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت محض ایک نظریہ نہیں بلکہ عوامی شرکت سے جڑا ہوا عملی عمل ہے، جس کی اصل طاقت نچلی سطح پر عوام کو فیصلوں میں شریک کرنے سے ظاہر ہوتی ہے۔ مقامی حکومتیں عوام کے قریب ترین نظامِ حکومت ہیں اور روزمرہ مسائل کے حل میں مرکزی کردار ادا کرتی ہیں۔سپیکر پنجاب ملک محمد احمد خاں نے زور دیا کہ بلدیاتی حکومتوں کو مالی خودمختاری، شفافیت اور بروقت فنڈز کی فراہمی ناگزیر ہے تاکہ عوام کو فوری اور مؤثر خدمات فراہم کی جا سکیں۔آئینی امور پر گفتگو کرتے ہوئے سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خاں نے کہا کہ پارلیمنٹ کو بااختیار اور مضبوط ہونا چاہیے اور اسے سپائن لیس نہیں ہونا چاہیے۔
پارلیمنٹ کو مقتدرہ دیکھنا چاہتا ہوں۔سپریم کورٹ نے 18ویں ترمیم کے بعد ایک ایسی تشریح کی جو کہیں نہیں پائی جاتی۔ سپریم کورٹ نے کہا کے ہم جج لگائیں گے بھی خود اور اتاریں گے بھی خود اور پارلیمنٹ کو کہا یہ ماننا پڑے گا۔ کامن ویلتھ کے تمام ممالک میں ایسا قانون موجود نہیں۔پارلیمنٹ کو ماں مانا جاتا ہے، کورٹ صرف آئین کی تشریح کر سکتی ہے۔میں 27 ترمیم سے 4 سال پہلے سے کہ رہا تھا آئین کے ساتھ فراڈ ہوا اس کو ٹھیک کریں۔اب اگر کسی پارلیمنٹ نے اس کو ٹھیک کرنے کی ہمت کی ہے تو اس کی تعریف ہونی چاہئیے۔
انہوں نے آئین کے آرٹیکل 140ـاے کے تحفظ سے متعلق قرارداد کی منظوری کو اہم پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا کریڈٹ چیئرمین پی اے سی احمد اقبال کو جاتا ہے۔سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خاں نے کہا ہے کہ ستھرا پنجاب مہم اور سڑکوں کی بحالی جیسے منصوبے بلدیاتی نظام کا اہم حصہ ہیں۔نوجوانوں، خواتین اور اقلیتوں کی شمولیت سے مقامی جمہوریت مزید مضبوط ہوتی ہے اور جہاں بلدیاتی حکومتیں فعال ہوں وہاں کمیونٹیز ترقی کرتی ہیں۔ انہوں نے تعلیم اور شعور کو نچلی سطح پر جمہوریت کے فروغ کے لیے لازمی قرار دیا۔









