مصطفی عامر قتل کیس

مصطفی عامر قتل کیس: سفاک ملزم کا دوران تفتیش نوجوان کو زندہ جلانے کا اعتراف

کراچی(رپورٹنگ آن لائن)اغوا کے بعد دوست کے ہاتھوں قتل کیے جانے والے نوجوان مصطفی عامر قتل کیس کی تحقیقات کے دوران سنسنی خیز انکشافات سامنے آنے کا سلسلہ جاری ہے جب کہ پولیس حکام نے دعوی کیا ہے کہ گرفتار ملزم ارمغان نے مصطفی عامر کے قتل کا عتراف کرتے ہوئے کہاہے کہ پیٹرول چھڑک کر مصطفی سے کہاکہ ڈگی و شیشے کھلے ہیں.

ہمت ہے تو بھاگ جائو،ملزم کی نشاندہی پر پولیس نے آلہ ضرب بھی برآمد کر لیاجبکہ گھر سے ملے ڈی این اے والی لڑکی کی تلاش بھی شروع کر دی گئی ہے ، دوسری جانب گرفتار ملزم ارمغان کے جیل میں برتائو کے حوالے سے ایک رپورٹ بھی سامنے آگئی ہے۔تفصیلات کے مطابق گرفتار ملزم ارمغان نے دوران تفتیش مصطفی عامر کے قتل کا اعتراف کرلیا ہے۔تفتیشی حکام نے بتایا کہ ملزم کی نشاندہی پر پولیس نے آلہ ضرب بھی برآمد کر لیاہے،ملزم ارمغان کی نشاندہی پر خیابانِ مومن میں اس کے بنگلے پر کارروائی کی گئی، بنگلے کے گارڈ روم میں چھپایا گیا ڈنڈا برآمد کر لیا گیا ہے۔

حکام نے بتایاکہ ملزم نے لوہے کی راڈ سے مصطفی کو 2 گھنٹے تک تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔فولڈنگ راڈ سے پہلے مصطفی کے ہاتھوں اور پیروں پر مار کر زخمی کیا، اس کے بعد اپنی رائفل اٹھا کر مصطفی کی جانب تین فائر بھی کیے لیکن فائر مصطفی کو نہیں لگے، فائر وارننگ دینے کے لیے کیے تھے۔تفتیش کے دوران ملزم ارمغان نے بتایا کہ تشدد کے دوران مصطفی کے سر اور گھٹنوں سے خون بہنا شروع ہو گیا تھا، 6 جنوری کو شیراز اور مصطفی کو اپنے بنگلے پر بلایا، مصطفی کے بنگلے پر پہنچنے کے بعد اس پر تشدد کیا۔

ملزم ارمغان نے انکشاف کیا کہ مصطفی پر تشدد کے دوران میں نشے کی حالت میں تھا، مصطفی کا خون بہنے پر مجھے شیراز نے روکا، شیراز کی مدد سے مصطفی کو اسی کی گاڑی میں ڈال کر حب لے گئے۔ملزم ارمغان کے مطابق حب لے جا کر گاڑی کی ڈگی کھولی تو مصطفی زندہ تھا، ڈگی اور گاڑی کے شیشے کھولنے کے بعد اس پر پیٹرول چھڑکا، مصطفی کو کہا کہ ڈگی اور شیشے کھلے ہیں، ہمت ہے تو بھاگ جائو، مصطفی نے حرکت کی کوشش کی لیکن گھٹنوں پر چوٹ کے باعث ہل نہیں پایا۔

ملزم ارمغان نے بتایا کہ آگ لگنے کے فورا بعد مجھے شیراز نے وہاں سے چلنے کا کہا، میں اور شیراز حب سے پیدل نکلے اور مختلف گاڑیوں سے لفٹ لے کر کراچی پہنچے۔ملزم نے انکشاف کیا کہ 8 فروری کو پولیس کے چھاپے کے دوران پولیس کو بنگلے میں داخل ہوتا دیر سے دیکھا، پولیس کو بروقت دیکھ لیتا کو پولیس سے فائرنگ کا تبادلہ اور طویل ہو سکتا تھا، خیابان محافظ سے دریجی تک میں مصطفی کی گاڑی خود ڈرائیو کرکے پہنچا۔ذرائع کے مطابق پولیس حکام نے ملزم ارمغان کے بیان کی ویڈیو ریکارڈنگ بھی کی، گرفتار ملزم کے پلان بی، شیروں اور فارم ہاوس سے متعلق تفتیش جاری ہے۔

پولیس حکام نے دعوی کیا کہ ارمغان خود نشہ فروخت بھی کرتا تھا اور نشہ استعمال بھی کرتا تھا، ارمغان نے نشہ فروخت کرنے کے بعد کال سینٹرکا کاروبار شروع کیا، ارمغان کے گھر سے جس خاتون کا ڈی این اے ملا تھا، اس لڑکی نشاندہی ہوگئی۔پولیس حکام کے مطابق پولیس نے مذکورہ لڑکی کی تلاش شروع کردی، مذکورہ لڑکی نیوایئرنائٹ پر ارمغان کے تشدد سے زخمی ہوئی تھی۔پولیس حکام کے مطابق مصطفی کو تشدد کرکے، فولڈنگ راڈ، فائرنگ کرکے یا جلا کرقتل کیا گیا، پوسٹ مارٹم رپورٹ اور ڈی این اے کی رپورٹ کے بعد ہی معلوم ہوسکے گا۔

اے وی سی سی ٹیم نے گزشتہ روز بھی ارمغان کی رہائش گاہ کا دورہ کیا تھا، اور مزید واقعاتی شواہد تلاش کرنے کی کوشش کی گئی، آئی او کا کہنا ہے کہ ارمغان کی رہائش گاہ سے ڈنڈا یا آلہ قتل میں شامل کوئی اور چیز نہیں مل سکی۔تفتیشی حکام کے مطابق ریمانڈ ملنے کے بعد ملزم ارمغان سے مسلسل تفتیش جاری ہے، تفتیشی رپورٹ تاحال مرتب نہیں ہوئی۔واضح رہے کہ ثبوت موجود ہونے کے باوجود پولیس کئی روز گزرنے کے باوجود مصطفی عامر قتل کیس حل نہیں کر سکی ہے، ارمغان کے گھر لگے کیمروں کی فوٹیج سے کیس حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے، جس کمرے میں مصطفی عامر کو قتل کیا گیا وہاں بھی سی سی ٹی وی کیمرا موجود ہے۔

پولیس پر فائرنگ کے دوران ارمغان نے سی سی ٹی وی کیمروں کی ویڈیو ڈیلیٹ کی، تاہم ذرائع نے بتایا کہ سی سی ٹی وی کی فوٹیج ریکور کر کے کیس حل کرنے میں مدد لی جا سکتی ہے۔ارمغان کے گھر پر لگے 30 سی سی ٹی وی کیمروں کا ڈی وی آر پولیس کی تحویل میں ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج کبھی بھی ریکور کی جا سکتی ہے۔ ایس ایس پی انیل حیدر کے مطابق ارمغان کے گھر سے کیمروں کا ریکارڈ ریکور کرنے کے لیے آرڈر دیا ہوا ہے۔

دوسری جانب گرفتار ملزم ارمغان کے جیل میں برتائو کے حوالے سے ایک رپورٹ سامنے آگئی ہے۔سینٹرل جیل حکام کے مطابق ملزم ارمغان کو 10 فروری کو سینٹرل جیل منتقل کیا گیا تھا، جہاں وہ 8 روز رہا، اس دوران جیل میں ارمغان کی حرکات و سکنات معمول کے مطابق رہیں۔حکام کے مطابق ملزم ارمغان کو جیل مینوئل کے مطابق کھانا فراہم کیا گیا، اور جیل میں ارمغان کا کوئی مس کنڈکٹ سامنے نہیں آیا، حکام نے بتایا کہ 18 فروری کو ہائیکورٹ کے حکم پر جسمانی ریمانڈ کے لیے ملزم کو پولیس کے حوالے کیا گیا۔