لاہور(رپورٹنگ آن لائن)پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی جانب سے اظہر محمود کو ٹیسٹ ٹیم کا عبوری ہیڈ کوچ مقرر کرنے کے اگلے ہی دن سابق کرکٹر باسط علی نے تہلکہ خیز انکشافات کردیے ہیں۔
پی سی بی نے پیر کو باضابطہ اعلان کیا تھا کہ اظہر محمود اپریل 2026 تک اپنے معاہدے کی مدت مکمل ہونے تک ٹیم کے عبوری ریڈ بال ہیڈ کوچ کے طور پر خدمات انجام دیں گے۔50 سالہ سابق آل راؤنڈر اپریل 2024 میں دو سالہ معاہدے پر پی سی بی سے وابستہ ہوئے تھے اور اس سے قبل قومی ٹیم کے اسسٹنٹ کوچ کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔
اظہر محمود کی کوچنگ میں پاکستان آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ 2025ـ27 کا آغاز اکتوبرـنومبر میں جنوبی افریقہ کے خلاف دو میچز کی ہوم سیریز سے کرے گا، جس کے بعد مارچـاپریل 2026 میں بنگلہ دیش کے خلاف دو میچز کی اوے سیریز کھیلی جائے گی۔ایک مقامی یوٹیوب چینل پر گفتگو کرتے ہوئے باسط علی نے انکشاف کیا کہ اصل میں مصباح الحق کو ہیڈ کوچ بنایا جانا تھا، لیکن پی سی بی کے اندر ہونے والی پسندیدگی کی تبدیلی اور ڈائریکٹر ہائی پرفارمنس عاقب جاوید اور ٹی 20 کپتان سلمان علی آغا کی حمایت نے کہانی کو بدل دیا۔
باسط علی نے کہا ”مصباح ہیڈ کوچ بننے والے تھے، لیکن ہوا کا رخ بدلتے ہی سب بدل گیا۔ عاقب جاوید اور کپتان سلمان علی آغا کی باتوں پر اظہر محمود کو ریڈ بال کوچ بنایا گیا۔ میں یہ بات پوری ذمے داری سے کہہ رہا ہوں، ورنہ مصباح کا نام فائنل ہو چکا تھا۔انہوں نے مزید بتایا ”سلمان علی آغا کے ووٹ کی وجہ سے ہی اظہر محمود کو یہ عبوری کوچ کا رول دیا گیا۔ کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو ہم کھل کر نہیں کہہ سکتے، ہمیں احتیاط بھی کرنی پڑتی ہے۔
54 سالہ باسط علی نے پی سی بی کی کوچنگ اپائنٹمنٹس کے غیر مستقل مزاج طریقہ کار پر بھی کڑی تنقید کی اور اس تاخیر پر سوال اٹھایا جس کے بعد اظہر محمود کے نام کا اعلان کیا گیا۔انہوں نے کہا ”آپ نے ابھی کہا کہ اظہر محمود کا معاہدہ اپریل 2026 تک ہے، تو ماضی میں جن مینٹورز کے ساتھ تین سال کا معاہدہ تھا، انہیں کیوں پیسے دے کر فارغ کر دیا؟باسط علی کا کہنا تھا کہ فیصلہ سازی میں انصاف اور مستقل مزاجی ضروری ہے.
اگر ایک کیس میں معاہدہ قبل از وقت ختم کیا جا سکتا ہے تو یہ اصول سب کے لیے یکساں ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا ”اگر آپ انصاف کا پیمانہ استعمال کر رہے ہیں تو سب پر یکساں لاگو ہونا چاہیے۔ آپ نے مینٹورز کو تین سال پورے نہیں کرنے دیے، اگر نکالنا ہی تھا تو انہیں بھی ایک دو ماہ کی تنخواہ دے کر فارغ کر دیتے، یہاں بھی یہی کر لیتے۔