شہباز اکمل جندران۔۔۔
اینٹی کرپشن لاہور ریجن نے سال 2020کے مقدمہ نمبر 46 چار ہزار گاڑیوں کی مشکوک رجسٹریشن کے مقدمے میں ڈیٹا انٹری آپریٹر محمدقاص کا نام بھی شامل کیا ہے۔اور الزام عائد کررکھا ہے کہ ڈی ای او محمد وقاص نے 2017 میں سینکڑوں گاڑیوں کا ریکارڈ سکین نہ کر کے جرم کیا۔
حالانکہ 2017 میں محمد وقاص نامی کلرک تو موجود تھا لیکن ڈیٹا انٹری آپریٹر متعلقہ پوسٹ پر تعینات ہی نہ تھا۔یوں اینٹی کرپشن نے جلد بازی میں ایک ایسے شخص کا نام مقدمے میں شامل کر ڈالا جس کا وجود ہی نہیں ہے۔
اینٹی کرپشن نے دوران انکوائری نہ تو محمد وقاص کو شامل تفتیش کیا اور نہ ہی اس کی بابت محکمے سے استفسار کیا۔
اسی مقدمے میں اس سے قبل ایک ایسے شخص کا نام بھی شامل ہے۔ جو 4 سال قبل دارفانی سے کوچ کرچکا ہے۔
ڈیٹا انٹری آپریٹرشکیل احمد عرف شکیل چھوٹا سال 2015 اور 2016 میں لاہور کی موٹر برانچ میں تعینات تھا۔اور بعد ازاں 2016 میں ہی خالق حقیقی سے جاملا۔
تاہم اینٹی کرپشن کی ٹیم نے دوران انکوائری نہ تو شکیل کے متعلق استفسار کیا اور نہ ہی حقائق سے آگاہ حاصل کی۔
پنجاب اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ آرڈیننس 1961 اور پنجاب اینٹی کرپشن رولز 2014 کے تحت اینٹی کرپشن کسی بھی معاملے میں جامع انکوائری کے بغیر مقدمہ درج نہیں کرسکتی۔
تاہم مقدمہ نمبر 46 میں ایسا نہیں کیا گیا اور ایک نامعلوم اور ایک مردہ شخص کو شامل مقدمہ کرکے اینٹی کرپشن نے اپنے ہی مقدمے کو انتہائی کمزور کرلیاہے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ انکوائری کے بعد مقدمہ درج کرنے کا قانونی طورپر پابند ہے
نامعلوم اور مردہ شخص کو مقدمے کا حصہ بنا کر اینٹی کرپشن نے اپنے ہی مقدمے کو سوالیہ نشان کی زد میں لاکھڑا کیا ہے۔ہیں۔