لاہور(رپورٹنگ آن لائن )پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی سے مذاکرات کے بغیرحکومت کیلئے مسائل پیدانہیں ہورہے ، پی ٹی آئی کودوبارہ26نومبرکی آگ جاگ اٹھی ہے تواس کے نتائج بھی ذہن میں رکھ لے۔
ایک انٹر ویو میں انہوں نے کہا کہ مذاکرات پی ٹی آئی کی خواہش پر شروع ہوئے،پی ٹی آئی نے ہمیں جواب کیلئے7ورکنگ ڈیزدیئے،وزیراعظم نے ایک بار پھر پی ٹی آئی کومذاکرات کی پیشکش کی،انہوں نے وزیراعظم کی پیشکش کو بھی ٹھکرادیا۔انہوں نے کہا کہ مذاکرات کاسلسلہ ختم ہوگیا،مذاکرات کے بغیرحکومت کیلئے مسائل پیدانہیں ہورہے،پی ٹی آئی جائے کھیلے،دوبارہ مذاکرات کاسوچے گی تودیکھ لیں گے،ہمیں بے اختیارہونے اورکٹھ پتلی ہونے کاطعنہ دے چکی ہے.
مذاکرات کے لئے بااختیارلوگوں کے پاس جاناچاہتی ہے توجائے،ہمارا دروازہ پی ٹی آئی نے خود بند کیا ہے،پی ٹی آئی کوکوئی دروازہ،کھڑکی یا روشن دان کھلانہیں ملے گا،کوئی ڈیل،پیشکش اورمذاکرات نہیں، ہروقت کسی جج یاجرنیل پرتکیہ کرتی ہے،اب ٹرمپ پرتکیہ کیا ہوا ہے،بانی پی ٹی آئی نے ایسے ٹویٹ کئے ہم میں صبرنہ ہوتاتوپہلی نشست کے بعدہی مذاکرات ختم ہوجاتے،ہم چاہتے توکہتے کہ پہلے سول نافرمانی کی کال واپس لوپھر بات کریں گے۔
عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ اپوزیشن کے نام پرمذاکرات میں آئیں ہیں توان کوساتھ لے کرچلیں،بانی پی ٹی آئی کو جو ملنا ہے عدالتوں اورمذاکرات سے ملناہے،ٹرمپ اورآئی ایم ایف سے کچھ نہیں ملے گا،ہم نے رچرڈگرینیل کے ٹوئٹس کواہمیت نہیں دی،نہ ڈیلیٹ کرنے سے فرق پڑا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنرکی تعیناتی کانظام جلد بنے گا اورتعیناتی ہو جائے گی۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کہہ رہی ہے اب اسلام آبادپرچڑھائی کریں گے توکسی سے بات نہیں ہوگی،مذاکرات میں ہومیوپیتھی کام کرتی ہے،انہیںہومیوپیتھی سوٹ نہیں کرتی،ان کوسوچناچاہیے انہیں9مئی سے کتنا پھل ملا،یہ 26نومبرسے گھبراکر مذاکرات پرآئے ہیں.
ان کودوبارہ26نومبرکی آگ جاگ اٹھی ہے تواس کے نتائج بھی ذہن میں رکھ لے،پی ٹی آئی یہ نہیں کہہ سکتی کہ ریلیف نہیں مل رہا،ریلیف مل رہاہے۔انہوں نے کہا کہ خط میں جن لوگوں کوایڈریس کیاگیاہے وہ بڑی شخصیات ہیں،خط میں حکومت کو ایڈریس نہیں کیاگیا،آئینی عہدے خط کا جوبھی جواب مناسب سمجھیں گے دیدیں گے،ججزکے خط کے معاملے میں حکومت کا لینا دینا نہیں ہے مجھے نہیں معلوم اسلام آبادہائیکورٹ کیلئے باہرسے چیف جسٹس لانے کی رائے ہے یانہیں۔انہوںنے کہا کہ پیکاقانون پرصحافیوں سے مشاورت ہونی چاہیے تھی جونہیں ہوئی،پیکا قانون کچھ دن کیلئے روک لیناچاہیے تھا.
صحافت میں کوروناکی طرح وائرس آگیا ہے،اس وائرس کو روکنے کیلئے کوئی نہ کوئی ویکسین ضروری ہے،پیکاقانون کافیصلہ میں نے نہیں،وزارت اطلاعات اورداخلہ نے کرناتھا،ہم اب بھی صحافی تنظیموں کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں،قانون میں ترمیم ہوسکتی ہے۔انہوںنے کہا کہ پیپلزپارٹی اورپی ٹی آئی نے بھی پیکا قانون منظورکرانے میں ساتھ دیا،صرف کامران مرتضی نے پیکاقانون کی مخالفت کی،تجاویزاورترامیم پیش کیں۔