محکمہ ایکسائز لاہور

محکمہ ایکسائز لاہور “بیگار کیمپ” ڈی جی سیکرٹری نوٹس لیں۔ ملازمین کی دہائی۔

رپورٹنگ آن لائن۔

ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ ریجن سی لاہور میں ڈائیریکٹر نے میل اور فی میل ملازمین کو مینٹل ٹارچر دینا شروع کردیا ہے اور ملازمت کو ان کے لئے بیگار کیمپ بنا کر رکھ دیا ہے۔
محکمہ ایکسائز لاہور
محکمہ ایکسائز لاہور
ڈائریکٹر محمد آصف نے قانون ، ملازمت کے قواعد وضوابط، اور سروس رولز کو ہاتھ میں لیتے ہوئے

(ا) اپنے ماتحت ریجن کے ملازمین سے 12 گھنٹے ڈیوٹی لینا شروع کردی ہے۔منگل اور جمعرات کو صبح
7 بجے سے شام 7 بجے تک اور معمول میں روزانہ دوپہر 2 بجے سے شام 7 بجے تک روڈ چیکنگ کا پابند بنایا گیا یے۔حالانکہ سرکاری سطح پر ڈیوٹی کے اوقات 8 گھنٹے ہے اور محمد آصف اپنے ماتحت ملازمین سے 4 گھنٹے اضافی ڈیوٹی کروارہا ہے۔کیا ڈائریکٹر آصف قانونا” ایسا کرنے کا اختیار رکھتا ہے یا مس یوز آف پاورز کا شکار ہورہا ہے؟
محکمہ ایکسائز لاہور
(2)اسی طرح محمد آصف نے پردہ دار خواتین کو ملازمت کے ٹرمز اینڈ کنڈیشنز کے برعکس پابند کیا ہے کہ وہ شہر میں گاڑیوں کے شورومز پر جائیں اور مرد حضرات کو ٹیکس کی ریکوری کے لئے convince کریں۔اور نادہندہ گاڑیوں کی فہرستیں تیار کریں۔کیا ڈائریکٹر ایکسائز قانونا” ایسا کرنے کامجاز ہے وہ اختیارات سے تجاوز کر رہا ہے؟
محکمہ ایکسائز لاہور
ڈی جی و سیکرٹری ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب کو بطور سربراہ ادارہ، محکمے کی نیک نامی اور قانونی پوزیشن کو مد نظر رکھتے ہوئے متذکرہ بالا غیرقانونی اقدامات کے ساتھ ساتھ اس امر کا بھی جائزہ لینا چاہیئے کہ
محکمہ ایکسائز لاہور
(3)کم ازکم کس گریڈ کا ملازم روڈ چیکنگ کر سکتا ہے اور کانسٹیبلان، کلرکوں،ڈیٹا انٹری آپریٹرز اور جے سی اوز سے روڈ چیکنگ کس قانون کے تحت کروائی جاتی ہے کہیں روڈ چیکنگ کے دوران ملازمین سے قابل دست اندازی پولیس جرم سرزد ہوگیا یا ان ملازمین کے ساتھ یا ان کے ہاتھوں کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوا تو ذمہ دار کون ہوگا؟
4
(4)روڈ چیکنگ پر ناکے کا ضابطہ کیا ہے کیا یہ قانونی ضرورت روڈ چیکنگ سے پہلے پوری کی جاتی ہے۔؟
محکمہ ایکسائز لاہور
(5)کیا ہیجڑوں کو روڈ چیکنگ پر مامور کیا جاسکتا ہے ایسا کس قانون کے تحت کیا جاتا ہے۔اگر خواجہ سرا کسی شہری سےالجھتا ہے یا کہیں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تو ذمہ دار کون ہوگا؟ پھر ان خواجہ سراوں کو تنخواہ یا ادائیگی کون اور کس بجٹ سے کرتا ہے۔اور یہ بجٹ کس کی اجازت سے استعمال ہوتا ہے؟

(6)کیا روڈ چیکنگ کے لئے اپنے ملازمین کو پک اینڈ ڈراپ کی سہولت دی جاتی ہے اگر نہیں تو کانسٹیبل جیسے مجبور ملازمین ڈیوٹی پوائنٹ پر کیسے پہنچتے ہیں۔

(7)نادہندہ گاڑیوں کے متعلق موٹر وہیکلز آرڈیننس کیا کہتا ہے کیا روڈ چیکنگ کے دوران سرعام بیچ چوراہے کس مرد یا عورت کی گاڑی کے ٹائر پر لوہے کا لاک لگا کر اسے JAMکیا جاسکتا ہے؟اگر نہیں تو ڈائیریکٹر ایکسائز ایسا کرکے اختیارات سے تجاوز کرتے ہیں؟

(8)نادہندہ مسافروں سے بھری بسوں اور ٹرکوں کے ٹائروں پر کس قانون کے تحت لوہے کے سنگل چڑھا دیئے جاتے ہیں۔قانون کی کون سی پروویژن اس کی اجازت دیتی ہے؟

(9)لوہے کے لاک بنوانے اور لوہے کے سنگل خریدنے کے لئے کون سا بجٹ استعمال ہوتا ہے۔اس کی کوٹیشن کب اور کس نے دی اور کب اخبار اشتہار آیا؟

(10)اصغر سلیم ، ابو حریرہ اور ملک جمیل جیسے مخصوص ملازمین روڈ چیکنگ پر کیوں نہیں جاتے اور جاتے ہیں تو یونیفارم کے بغیرایک آدھ گھنٹے بعد غائب کیسے ہوجاتے ہیں اور ڈائیریکٹر ریجن سی ان کے لیئے نرم گوشہ کیوں رکھتا ہے؟

(11)اور آخر میں ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کس قانون کے تحت نان کسٹم پیڈ گاڑیاں پکڑتا ہے کیونکہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق یہ اختیار صرف کسٹمز حکام کے پاس ہے۔لیکن ڈائیریکٹر آصف نے اپنے ماتحت ملازمین کو پابند کررکھا ہے کہ وہ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں پکڑیں