واشنگٹن (رپورٹنگ آن لائن)ٹرمپ کو ابھی تک چین کی کال موصول نہیں ہوئی، اور اس کے چہرے پر پے درپے تھپڑ رسید ہو رہے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ نے “سیکشن 232” کی تحقیقات کے بارے میں حقائق کی ایک فہرست جاری کی، جس میں کہا گیا کہ چین کی جانب سے امریکہ کے خلاف محصولات کی جوابی کارروائی کی وجہ سے چین کو 245 فیصد تک محصولات کا سامنا ہے۔ صرف دو دن بعد 17 اپریل کو ٹرمپ نے کہا کہ وہ چین پر محصولات میں اضافہ جاری نہیں رکھنا چاہتے کیونکہ اس سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت رک سکتی ہے۔
اس سے پہلے جب امریکی حکومت نے چین پر 10 اور 20 فیصد محصولات عائد کیے تھے تو چینی عوام اور کاروباری ادارے اس پر گہری توجہ دے رہے تھے لیکن اب اس طرح کی گھناؤنی شرح محصولات نے چین امریکہ تجارتی معاملات کی سنگینی کو مسخ کر دیا ہے اور یہ ایک بھونڈا مذاق بن گیا ہے، لہذا ان دنوں بہت سے چینی “لنگ شیاؤژے” نامی ایک زخمی برفانی چیتے کی صحت یابی کے بارے میں زیادہ فکر مند ہیں، اور محسوس کرتے ہیں کہ لنگ شیاؤژے کو گوشت کھاتے ہوئے دیکھنا وائٹ ہاؤس کے جوکر کا شو دیکھنے سے کہیں زیادہ دلچسپ ہے۔
اگر ٹیرف کی جنگ نے کسی ایک چیز کو بے نقاب کیا ہے جو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تو وہ ہے امریکہ کی معاشی کمزوری اور اسٹریٹجک اضطراب۔ اب تک بین الاقوامی برادری اس بات پر متفق ہے کہ امریکہ کا غنڈہ گردی کا رویہ نہ صرف اس کی مینوفیکچرنگ انڈسٹری کو دوبارہ بحال نہیں کر سکتا بلکہ امریکہ میں افراط زر کو بڑھا رہا ہے ، معاشرے کو تباہ کر رہا ہے، اور طاقت کی سیاست بالآخر خود اپنے آپ کو نقصان پہنچائےگی ۔ گلوبلائزیشن کا فروغ جاری رکھنا ، بین الاقوامی تعاون کو مضبوط بنانا، اور عالمی اقتصادی لچک کو بڑھانا ہی بین الاقوامی برادری کے لئے عالمی ترقی کے وژن کو عملی جامہ پہنانے اور ایک بہتر مستقبل کی تعمیر کا واحد راستہ ہے۔
واشنگٹن پوسٹ نے حال ہی میں ان چھ حیرت انگیز اشیاء کا خلاصہ پیش کیا ہے جو امریکیوں نے مضحکہ خیز ٹیرف وار کی گھبراہٹ کے تحت ذخیرہ کرنا شروع کردی ہیں، جن میں ڈبہ بند کیٹ فوڈ جسے درآمد کردہ ٹن پیکنگ پر محصولات کی وجہ سے اضافی قیمتوں کا سامنا ہے، سن اسکرین جو فلٹرز کی کمی کی وجہ سے امریکہ میں شاذ و نادر ہی تیار کی جاتی ہے، چین میں تیار ہونے والے عروسی ملبوسات (دنیا کے تقریباً 90ً فیصد عروسی ملبوسات چین میں تیار کیے جاتے ہیں) ، انسٹنٹ کافی جو ویتنام جیسے روبسٹ کافی کے بڑے پروڈیوسرز پر زیادہ ٹیرف کی وجہ سے اسٹاک سے باہر ہوسکتی ہے، چین سے امریکہ درآمد ہونے والے بالوں کے بنڈل جو وگ کے لئے استعمال ہوتے ہیں ، چین میں تیار کردہ زیادہ تر بورڈ گیم مصنوعات ، امریکہ کے چھوٹے بھائی جاپان سے سیویڈ ، اور فرانس اور کینیڈا سے پرفیوم وغیرہ۔
ٹرمپ کے محصولات کے بھرم کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک چینی اسکالر کا کہنا تھا کہ ٹرمپ واقعی سوچتے ہیں کہ امریکا دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے، لہٰذا جو بھی امریکی مارکیٹ چھوڑے گا اسے مرنا پڑے گا، لہٰذا جیسے ہی میں ٹیرف بڑھاوں گا تو دنیا کو ہتھیار ڈالنے ہی پڑیں گے۔ یہ وہم ایسا ہی ہے جیسے ایک ڈاکو کاغذ کے ٹکڑے پر پستول کا لفظ لکھتا ہے، اور پھر اس کاغذی ٹکڑے کو بندوق کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ایک راہگیر کے سر پر اشارہ کرتا ہے اور کہتا ہے، “میرے پاس بندوق ہے، پیسے دے دو”۔ اس احمق چور کو واقعی یہ معلوم نہیں تھا کہ راہگیروں کے پاس بچاو کے دوسرے طریقے بھی ہیں، اور کوئی تیز مزاج راہگیر ایک حقیقی بندوق نکال کر اسے حیران بھی کر سکتا ہے ۔
اگلے سال امریکہ کے قیام کی 250 ویں سالگرہ ہوگی اور چینی زبان میں 250 کا دوسرا مطلب اردو میں 420 کے برابر ہے جس سے مراد ایک دھوکہ باز شخص ہےجو عقل کو درست طور پر استعمال نہیں کرتا۔ امریکہ کی 250 ویں سالگرہ کے موقع پر وائٹ ہاوس میں موجود یہ دو سو پچاس صدر کوئی اور مضحکہ خیز قدم اٹھائیں گے یا پھر کیا وہ بیسٹ سیلر کتاب “دو سو پچاس کے غمگین گیت ” لکھیں گے، دنیا یہ دیکھنے کے لئے منتظر ہے۔
امریکی محصولات کی جنگ کی شکست نہ صرف امریکی حکومت کی معاشی منطق کی الجھن میں مضمر ہے بلکہ اس حقیقت میں بھی پوشیدہ ہے کہ ٹرمپ اب بھی فرسودہ تسلط پسندانہ سوچ میں ڈوبے ہوئے ہیں، ٹرمپ نے سوچا کہ “مار-اے-لاگو معاہدے” کے ذریعے وہ جاپان کو شکست دینے والے “پلازا معاہدے” کی کامیابی کو دہرا سکتے ہیں ۔ لیکن وہ بھول گئے کہ بیجنگ ٹوکیو نہیں ہے، اور غنڈہ گردی کے خلاف چین کا ردعمل ایک عظیم طاقت کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔
چین دنیا بھر کے ان ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے پر عزم ہے جو بالادستی کے سامنے جھکنے سے انکار کرتے ہیں، ہم امریکی ٹیرف جنگ کو کثیرالجہتی نظام کو فروغ دینے کے موقع میں بدلنا چاہتے ہیں، اور اپنے اقدامات سے دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ طاقت کے سامنے جھکنا صرف لالچ کو ہوا دیتا ہے۔ حقیقی وقار صرف خود انحصاری سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ظلم کے خلاف متحد ہو کر مزاحمت کرنا اور منصفانہ تجارت کا دفاع کرنا ہی “اس خوف کے قیدی کے مسئلے” کا صحیح حل ہے، اور جو لوگ امریکہ کی کاغذی بندوق کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں، ہم ان کے لیے صرف افسوس کر سکتے ہیں اور ان کی کمزوری پر غصہ۔
آج کی دنیا میں یونی پولر بالادستی بکھرتی نظر آ رہی ہے اور کثیر قطبیت کی لہر کو روکا نہیں جا سکتا۔ تاریخ کبھی بھی مغروروں کی حمایت نہیں کرتی اور صرف عزت نفس اور خود اعتمادی رکھنے والی قوم ہی سر اٹھا کر کھڑی ہو سکتی ہے۔ چینیوں کی ریڑھ کی ہڈی تاریخ کے سخت تجربات اور مصیبتوں سے وجود میں آئی ہے، اور چینیوں کے عزائم قدیم موٹو “کبھی ہمت مت ہارنا” کے باوقار آدمی کے جذبے سے آتے ہیں۔اور پھر عوامی جمہوریہ چین کے قومی ترانے کے بول کا پہلا جملہ یہ ہے : “اٹھو، غلامی سے انکار کرنے والو” !