کراچی (رپورٹنگ آن لائن)صدر ایف پی سی سی آئی عرفان اقبال شیخ نے واضح طور پر مانیٹری پالیسی کو ملک کی معاشی تاریخ کی بدترین مانیٹری پالیسی قرار دیا ہے اور پیشن گوئی کی ہے کہ اس سے معاشی، تجارتی، انوسیمنٹ اور کمرشل سرگرمیاں رک جائیں گی اوریہ حالات پاکستان کی کاروباری، صنعتی اور تاجر برادری کے لیے مکمل تباہی کا منظرنامہ پیش کررہے ہیں۔
عرفان اقبال شیخ نے اس بات پر زوردیا کہ پاکستان اب تقریبا پورے خطے میں کاروباری سرمائے تک رسائی اور کاروبار کرنے کی لاگت کے لحاظ سے اب بد ترین ممالک میں سے ایک بن چکا ہے اور ایک بار پھر حکومت نے کاروباری برادری سے مشاورت کے بغیر معاشی پالیسی سازی کی اپنی قابل مذمت روایت کو برقرار رکھا ہے؛ نتیجتا، اکانومی کے حقیقی اسٹیک ہولڈرز کو ایک بار پھر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔صدرایف پی سی سی آئی نے آگاہ کیا ہے کہ اب کمرشل بینک کاروباری اداروں کو 22.5سے23 فیصد سے کم شرح سود پر قرضہ نہیں دیں گے اور کوئی بھی کاروباری ادارہ اب اس شرح سود پر قرضہ لینا افورڈ نہیں کر سکتا اور اس کے نتیجے میں بینکنگ یا فارمل سیکٹر سے نجی شعبے کے لیے قرضو ں کا اجرا مکمل طور پر بند ہو جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ کئی سالوں سے نا موافق حالات کی وجہ سے محض 7 فیصد کاروباری ادارے ہی بینکوں سے قرضہ لے رہے ہیں۔ عرفان اقبال شیخ نے تجویز پیش کی کہ پوری تاجر برادری کو تمام سیاسی جماعتوں کو ایک جامع، غیر سیاسی، قانونی طور پر نافذ کردہ اور طویل المدتی چارٹر آف اکانومی پر دستخط کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے ایک قومی سطح کی مہم شروع کرنی چاہیے؛ جس کا مقصد اگلے 15 سالوں کے لیے معاشی پالیسیوں کا تسلسل یقینی بنانا ہو۔ جس میں مالیاتی، بجٹ، ٹیکس و ریونیو، ٹریڈ، انڈسٹریل، سرمایہ کاری، ایگری کلچرل و فوڈ، آئی ٹی و ٹیلی کام، انرجی اور ایس ایم ای پالیسیاں شامل ہوں۔
سنیئر نائب صدر ایف پی سی سی آئی سلیمان چالہ نے مزید کہا کہ پالیسی شرح سود میں تاریخی اضافے کے ساتھ ہی حکومت نے بجلی کے نرخوں پر 5 برآمدی شعبوں کو دی جانے والی سبسڈی کو بھی اچانک واپس لے لیا ہے؛ جو کہ ملک میں در پیش موجودہ کاروباری ماحول اور سرمایہ کاری کے جذبات کی انتہائی بری صورتحال میں مزیدہیجان برپا کر دے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آخر کس طرح پاکستانی صنعتکار ملک کی برآمدات کی ریڑ ھ کی ہڈی، یعنی ٹیکسٹائل اور اس سے منسلکہ مصنوعات ان صنعت مخالف اور برآمدات مخالف اقدامات کے بعد مالی سال2022 کی 19.3 ارب ڈالر کی برآمدی کارکردگی کو کیسے دہرا سکتی ہیں۔