لاہور (رپورٹنگ آن لائن) لاہور ہائیکورٹ نے لین دین کے تنازعے پر قتل کے الزام میں سزائے موت پانے والے مجرم مقبول حسین کو بری کر دیا۔
عدالت نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے مجرم کو چھ سال بعد سزائے موت سے رہائی کا حکم دیا۔ جسٹس شہرام سرور چوہدری اور جسٹس سردار اکبر علی ڈوگر پر مشتمل دو رکنی بینچ نے مجرم کی اپیل کے متعلق سماعت کی ۔ عدالت نے قرار دیا کہ استغاثہ گواہوں کی موقع پر موجودگی ثابت کرنے میں ناکام رہا جبکہ شواہد میں متعدد تضادات پائے گئے۔
مقدمے کے ریکارڈ کے مطابق، پاکپتن پولیس نے 2019ء میں محمد امجد کے قتل کا مقدمہ درج کیا تھا، جس میں مقبول حسین سمیت دیگر افراد کو نامزد کیا گیا تھا۔ مقدمے میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ ملزمان نے مالی لین دین کے تنازعے پر فائرنگ کر کے محمد امجد کو قتل کیا۔وکیل صفائی نے عدالت کو بتایا کہ گواہوں کی موقع پر موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں، پوسٹ مارٹم رپورٹ تاخیر سے تیار کی گئی، اور پولیس تفتیش میں سنگین خامیاں موجود ہیں۔ ان کے مطابق، ٹرائل کورٹ نے بغیر ٹھوس شواہد کے محض شک کی بنیاد پر مجرم کو سزائے موت کا حکم سنایا، جبکہ شریک ملزم خالد پہلے ہی بری ہو چکا ہے۔
دوسری جانب سرکاری وکیل نے مجرم کی اپیل کی مخالفت کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ پولیس تفتیش، گواہوں کے بیانات اور میڈیکل رپورٹ کے مطابق ملزم قصور وار ہے، اس لیے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ درست ہے۔تاہم عدالت نے قرار دیا کہ گواہوں کی گواہی غیر مصدقہ اور غیر معتبر ہے، جس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
عدالت نے استغاثہ کا موقف غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے مقبول حسین کی اپیل منظور کر لی اور سیشن کورٹ کا سزائے موت دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔یوں چھ سال بعد مجرم مقبول حسین بری ہو گیا۔









