اسلام آ باد (رپورٹنگ آن لائن )عدالت نے اسلام آباد کے سیکٹرای الیون میں لڑکا لڑکی ویڈیو اسکینڈل کیس میں عثمان مرزا سمیت 5 ملزمان کوعمر قید کی سزا جبکہ دو کو بری کر دیا گیا ۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں ای الیون میں لڑکا لڑکی تشدد کیس کی سماعت ہوئی ، ملزم فرحان شاہین وکیل کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔ جج نے ملزم سے استفسار کیا کہ بتا بھی کیا ہوا تھا، کیا تم موقع پرموجودتھے، وکیل کو مت دیکھو مجھے بتا انہوں نے جو کہنا تھا وہ کہہ دیا، جس پر ملزم فرحان شاہین نے بتایا کہ میں بےگناہ ہوں اور موقع پرنہیں تھا۔
جج نے پولیس کو حکم دیا کہ اگر نہیں تھے تو جا تم بات ہی ختم، ملزم کو واپس لے جائیں۔ ملزم عطاالرحمان عدالت میں پیش ہوئے ، جج نے استفسار کیا کہ آپ نے چابیاں دی تھیں،پھر آپ کوملوث کیوں کیاگیا، ملزم نے کہا عثمان کے ساتھ سلام دعا تھی اور میں پراپرٹی کا کام کرتاہوں ، جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ وقوعہ کے بعدآپ نے پولیس کوکیوں نہیں بتایا،آپ کے حفظ کا کیا فائدہ۔ ملزم کی موجودگی میں اس کی ویڈیو عدالت میں چلائی گئی ،عدالت نے پولیس کو ہدایت کی کہ ٹھیک ہے ملزم کو بھی واپس لے جاو ۔لڑ کا لڑکی تشددکیس،عثمان مرزا سمیت 2 ملزمان عدالت میں پیش ہوئے ، جج نے استفسار کیا کہ عثمان مرزا کیا مسئلہ تھا ،ویڈیو کیوں بنائی تھی، جس پر ملزم عثمان مرزا نے کہا کچھ بھی نہیں مجھے ویڈیو کا علم ہی نہیں۔
جس پر جج کا کہنا تھا کہ اس کا چہرہ فرنٹ پرکرکے دکھاآپ چہرے پکڑ کرکیمرے کی طرف کر رہےہیں تو عثمان مرزا نے کہا یہ ویڈیو ہمارے مخالف جو ہے انہوں نے بنائی ان کا کام ہے۔ جج نے استفسار کیا مخالفت تو کاروبار میں ہوتے ہیں مگر ویڈیو کیوں بنائی، جج نے ہدایت ان دونوں کو بھی لے جا، جس کے بعد ملزمان عمر بلال اور ریحان حسین بھی عدالت میں پیش ہوئے تو جج نے ملزمان کو حکم دیا کہ آپ نے جانا نہیں ادھر ہی بیٹھ جائیں۔ عدالت نے اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون لڑکا لڑکی ویڈیو اسکینڈل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مرکزی ملزم عثمان مرزا سمیت 5 ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی ، ملزمان میں محب بنگش، ادراس قیوم بٹ، حافظ عطا الرحمن اور فرحان شاہین شامل ہیں جبکہ دیگر دو ملزمان عمر بلال اور ریحان کو بری کر دیا۔ عثمان مرزا کیس کا اسپیڈی ٹرائل ساڑھے 5 ماہ میں مکمل ہوا۔
اٹھائیس ستمبر 2021 کو مرکزی ملزم عثمان مرزا سمیت 7 ملزمان پر فرد جرم عائد ہوئی تھی۔ چھ جولائی2021 کو ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد کیس شروع ہوا۔ خیال رہے ستمبر 2021 میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیس میں شریک 3ملزمان ادارس قیوم بٹ، حافظ عطاالرحمان اور فرحان شاہین کی ضمانتیں خارج کردی تھیں۔جسٹس محسن اختر کیانی نے درخواست ضمانت پر دلائل کے بعد فیصلہ سنایا تھا۔
اس سے قبل پولیس چلان میں عثمان مرزا اور ابرار کو مرکزی قرار دیا گیا تھا جنہوں نے ساتھیوں کے ساتھ نازیبا ویڈیو بنائی اور بلیک میل کر کے بھتہ وصول کیا تھا۔ پولیس نے ملزم کی نشاندہی پر ویڈیو والاموبائل فون اور پستول برآمد کیا تھا اور دوران تفتیش ملزم عمر بلال نے انکشاف کیا تھا کہ عثمان مرزا کے کہنے پر متاثرہ لڑکا اور لڑکی سے سوا 11لاکھ روپے لیے جس میں سے 6 لاکھ روپے عثمان کو دیے اور باقی رقم دیگر ساتھیوں میں تقسیم کی۔ متاثرین کا مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ بیان بھی چالان کا حصہ بنایا گیا تھا۔ متاثرہ لڑکی کے مطابق عثمان اور اس کے دوست ہمارا مذاق اڑاتے اور ویڈیو بناتے رہے۔ پولیس نے جوڑے کو ہراساں اور ان پر تشدد کرنے والے ملزمان کے موبائل سے ویڈیوز برآمد کرکے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی(ایف آئی اے)کے حوالے کردی تھی۔ ایف آئی اے کی خاتون ایکسپرٹ عاصمہ مجید، محرر تھانہ گولڑہ کاشف حیات، کمپیوٹر آپریٹر سجاد افضل نے بطور گواہ اپنے بیانات ریکارڈ کروائے تھے۔ ایف آئی اے کی ماہر خاتون نے بتایا تھا کہ پولیس کی جانب سے جو ڈیوائس ملی اس کی فرانزک رپورٹ میں آڈیو ملزم سے ملتی ہے۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی آئی جی آپریشن افضال کوثرنے بتایا تھا کہ ملزمان نے لڑکی کے ساتھ ریپ بھی کیا تھی اور متاثرہ لڑکی کے بیان کے بعد ایف آئی آر میں مزید دفعات کا اضافہ کیا گیا۔ واضح رہے کہ یہ واقعہ 18 نومبر 2020 کو سیکٹر ای الیون میں پیش آیا تھا جس کی ایف آئی آر 8 ماہ تاخیر سے درج ہوئی، مقدمہ متاثرین نہیں بلکہ ایس ایچ او تھانہ گولڑہ کی شکایت پر 6 جولائی 2021 کو درج ہوا تھا۔