لادھی گینگ کون ہے۔کہاں رہتا ہے۔کیسے وجود میں آیا۔کون پشت پناہی کرتا ہے۔مکمل تفصیلات

رپورٹنگ آن لائن۔۔۔۔

قریب ایک دہائی قبل بننے والی لادھی گینگ ڈیرہ غازیخان کے کھوسہ سرداروں کا ایک عسکری ونگ ہے جو کہ ڈیرہ غازی خان سے مغرب کی جانب 20 کلو میٹر کے فاصلے پر بارڈر ملٹری پولیس کے تھانہ کشوبہ سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر کوہ سلیمان کے پہاڑی علاقوں میں اس کا مرکزی کیمپ ہے
لادھی گینگ
اس کے کئی رکن باھمی دشمنیوں میں اور کئی پنجاب پولیس کے ساتھ مقابلوں میں مارے جاچکے ہیں۔

لیکن مقامی آوارہ لڑکوں کی باقاعدگی کے ساتھ بھرتیوں کی وجہ سے یہ گینگ مضبوط سے مضبوط تر بنتی گئی
اس کے موجودہ کمانڈر کا نام خدا بخش عرف خدی چکرانی ہے جس نے زندہ انسان کے اعضاء کاٹے
یہ حیوان نما شخص انسانیت کے نام پر دھبہ ہے
لادھی گینگ
لادھی گینگ جس کے نام پر کھوسہ سرادر میاں منشا کی ڈی جی سیمنٹ فیکٹری سے ماہانہ کروڑوں روپے سکیورٹی کے نام پر بھتہ لیتے ہیں نہ ملنے کی صورت میں ڈی جی سیمنٹ فیکٹری کی تنصیبات پر اس گینگ کی مدد سے حملے کرواتے ہیں اور اس کے علاوہ علاقے میں سردار کی چاپلوسی نہ کرنے والے اور ووٹ نہ دینے والے شرفاء شہریوں کے خلاف کھوسہ سردار اس گینگ کو استعمال کرتے ہیں

نواز شریف دور میں میاں منشاء کی درخواست پر اس گینگ کے خلاف سکیورٹی ادارے بشمول آرمی آپریشن کرنا چاہتے تھے لیکن مقامی کھوسہ سردار اس آپریشن کی راہ میں رکاوٹ بن گئے اور حالات کی بہتری کا لالی پاپ دے کر آپریشن نہیں کرنے دیا کیونکہ ان گینگز کا خاتمہ مقامی سرادروں کیلئے فائدہ مند نہیں ہے جسے وہ ذاتی مفادات کیلۓ استعمال کرتے رھتے ھیں

یہ گینگ ڈیرہ غازی خان کے میدانی قصبوں جو کہ پنجاب پولیس کی حدود میں آتے ہیں جن میں شاہ صدر دین شیخانی کوٹ مبارک یارو کھوسہ چھابری بالا کوٹ ہیبت میں زیادہ تر کاروائیاں کرتے ھیں اور کاروائی کرنے کے بعد اندر پہاڑ روپوش ہو جاتے ہیں

اس گینگ نے مقامی لوگوں کی زندگی عذاب اور اجیرن بنا رکھی ہے آئے روز لادھی گینگ مقامی لوگوں سے اسلحہ کے زور پر کبھی موٹر سائیکل کبھی کار اور کبھی ٹریکٹر چھین لیتے ہیں۔کبھی بارات تو کبھی جنازے لوٹ لیتے ہیں۔
حتی کہ گندم سے بھری ٹرالیاں بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔

صورتحال یہ ہے کہ ڈی جی کینال کو کراس کرنا مقامی لوگوں نے کافی حد تک چھوڑ دیا ہے
کیونکہ اس کینال سے آگے اس گینگ کے ہاتھ اگر کوئی لگ جائے اس کے ساتھ انسانیت سوز ظلم کیا جاتا ہے
اغوا برائے تاوان کے حصول کیلئے شریف شہریوں پر حیوانوں جیسے ظلم کیا جاتا ہے

مئی 2021 کی شروع میں لادھی گینگ نے جب ایک دو دن کے فرق سے 3 جنازوں کو لوٹا۔

مقامی بارڈر ملٹری پولیس میں ان کے مخبر موجود ہیں جو انہیں ہونے والے ہر آپریشن کی خبر پہلے ہی دے دیتے ہیں۔

جس سے یہ فرار ہو جاتے ہیں اور عملا” بارڈر ملٹری پولیس جس کا کام صرف قتل ہونے والے لاشوں کو اٹھانے کا ہے

پنجاب پولیس نے تھوڑی بہت مزاحمت ان کے خلاف دکھائی ہے جو آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

زرائع کا کہنا ہے کہ ڈیرہ غازی خان کی پولیس کبھی بھی نہیں چاہے گی کہ اس گینگ کا خاتمہ ہو
کیونکہ اس گینگ کا خاتمہ پولیس کیلئے کوئی سود مند نہیں ہو گا کیونکہ اس گینگ کے خاتمے کے بعد اگر کوئی واردات ہو گی تو پولیس کو بھاگ دوڑ کرنی پڑے گی اب مزے سے ہر واردات کے ساتھ لادھی گینگ کا نام لگا دیا جاتا ہے۔

درندگی کی انتہا تو اس وقت ہوئی جب لادھی گینگ نے توبہ کرنے کے ایک دن بعد یعنی 25 مئی 2021 کو مخبری کے شبہ میں 3 افراد کو اغواہ کیا ایک موقع پر فائرنگ سے ہلاک ہو گیا ایک ابھی تک اسی گینگ کی پاس ہے

ایک زندہ مغوی کے ہاتھ کان ناک کاٹ کر پھینک دیا سفاکیت تو یہ ہے زندہ انسان کو کاٹتے ہوئے اس کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی گئی
تاکہ مقامی سطح پر کوئی بھی آدمی ان کے خلاف نہ بولے۔

اس گینگ نے اپنے قیام سے اب تک 50 سے زاہد قتل کیے ان گنت زخمی کیے اور رہزنی گینگ ریپ تو ان کیلئے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے

لادھی گینگ کے تمام افراد کے اپنے اپنے سوشل میڈیا اکاونٹ ہیں جس میں وہ باقاعدگی سے اپنے طرف سے ڈھائے گئے مظالم اپلوڈ کرتے ہیں
تاکہ مقامی سطح پر ان کا خوف ہو
جو کہ واقعی قائم ہے۔

اور اگر آپ ضلع ڈیرہ غازی خان میں کسی بھی آدمی سے آن ائیر یا براہ راست بات کریں کوئی بھی ان کے خلاف بات نہیں کرے گا۔

لادھی گینگ کے خلاف زمینی آپریشن ناممکن ہے
ہو سکتا ہے کامیابی ملے
لیکن نقصان کا اندیشہ زیادہ ہے جب تک فضائی مدد نہ استعمال کی جائے
کیونکہ ان کے ٹھکانے پہاڑوں کی چوٹیوں پر ہیں جہاں پر بکتر بند گاڑی کا جانا ناممکن ہے

لادھی گینگ کے پاس ہر طرح کا جدید اسلحہ ہے
جس میں راکٹ لانچرز دستی بم اینٹی ائیر کرافٹ گن کلاشنکوف وغیرہ شامل ھیں

لادھی گینگ کے خلاف آپریشن کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر ان کے سہولت کاروں کو جب تک عبرت ناک سزائیں نہیں ملیں گی تب تک امن ممکن نہیں
اس گینگ کے موبائل فون نمبرز کا بائیو ڈیٹا نکالیں ایک ایک سہولت کار کا چہرہ عوام کے سامنے آ جائے گا.