اسلام آباد (رپورٹنگ آن لائن) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ترمیمی)بل 2021 کثرت رائے سے منظور کرلیا، اپوزیشن ارکان نے بل کی مخالفت کی، وفاقی وزیر برائے خزانہ شوکت ترین نے کمیٹی کو بتایا کہ یہ بل مارچ والے بل سے مختلف ہے،بورڈ آف ڈائریکٹرز حکومت پاکستان کی جانب سے تقرر کیا جائے گا،پی ٹی آئی کا ہمیشہ منشور رہا ہے کہ اداروں کو خودمختاری دینی ہے، اسٹیٹ بینک کا کافی غلط استعمال بھی کیا گیا،پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ہم نے ایک پیسہ بھی اسٹیٹ بینک سے نہیں لیا،پارلیمنٹ کو ہم نے مضبوط کیا، میں نے ایف بی آر کو بھی خودمختار بنانا ہے جبکہ گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے کمیٹی کو بتایا کہ کافی ساری فیک نیوز چل رہی تھیں کہ اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کو بیچا جارہا ہے، اسٹیٹ بینک کی اونرشپ حکومت پاکستان کی ہے اور اس بل میں بھی حکومت پاکستان ہی کی رہے گی۔
اپوزیشن ارکان کمیٹی نے کہا کہ ریاست کے اندر ریاست نہیں بنانا چاہیے، ہم اس بل کے پاس کرنے کے مخالف ہیں، آئی ایم ایف کی شرائط کے خلاف ہیں،آپ پارلیمنٹ کی خودمختاری پر قدغن نہیں لگا سکتے،سپر کلاس آف بیوروکریٹ نہ بنا دیں۔پیر کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی فیض اللہ کی صدارت میں ہوا،اجلاس کے آغازمیں وفات پانے والے مسلم لیگ ن کے رہنما پرویز ملک کے لئے دعا کی گئی۔ اجلاس میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ترمیمی)بل 2021 کا جائزہ لیا گیا، چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ کمیٹی کا ماحول اچھا ہی رہنا چاہیئے،سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی طرف نہ جائیں، ماحول کوہم نے اچھا رکھنا ہے، رکن کمیٹی نوید قمر نے کہا کہ آپ چاہ رہے ہیں بل آج ہی پاس ہو جائے ، معیشت کو یہ بہت زیادہ متاثر کرے گا۔
وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ بحث ضرور کرنی چاہیے، ہمیں جلدی کرنے کی ضرورت نہیں ہے ہم بیٹھے ہیں،ابہام میں دور کرنا چاہتا ہوں، پی ٹی آئی کا ہمیشہ منشور رہا ہے کہ اداروں کو خودمختاری دینی ہے، ساری دنیا میں سنٹرل بینک کی خودمختاری ہوتی ہے، اسٹیٹ بینک کا کافی غلط استعمال بھی کیا گیا،پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ہم نے ایک پیسہ بھی اسٹیٹ بینک سے نہیں لیا،وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمارا بورڈ ہمارا ہو گا، بورڈ ہمارا ہو گا تو کنٹرول بھی ہمارا ہوگا،ووٹنگ ممبر ہم نے ہی نامزد کرنے ہیں،پارلیمنٹ کو ہم نے مضبوط کیا، بورڈ آف ڈائریکٹرز حکومت پاکستان کی جانب سے تقرر کیا جائے گا،یہ بل مارچ والے بل سے مختلف ہے۔
رکن کمیٹی علی پرویز ملک نے کہا کہ گورنر چیئرمین آف بورڈ کیسے ہو سکتے ہیں،بالکل وزیر خزانہ کے ہاتھ جھکڑ نہ دیئے جائیں، سپر کلاس آف بیوروکریٹ نہ بنا دیں،اس کو تھوڑا بہتر کردیں،وزیر خزانہ شوکت ترین کہا کہ ہائیرنگ حکومت کے پاس ہو گی ہے، آٹھ لوگوں کا آزاد بورڈ ہے۔رکن کمیٹی قیصر احمد شیخ نے کہا کہ جلدی نہ دکھائیں تفصیل سے بات کریں، پاکستان کی تاریخ میں ایسا بل شاید کبھی نہیں آیا، سارا فارن انویسٹر پاکستان سے چلا گیا ہے، وزیراعظم کے اختیار کو آپ نےکم کر دیا ہے، ملک ہمارا تو بہت پیچھے چلاگیا ہے، کوئی قومی اسمبلی کو کیا جوابدہ ہے؟ قیصر احمد شیخ کی باتوں کا جواب دیتے ہوئے وزیر خزانہ جذباتی ہو گئے اور اونچی آواز میں بات کرنے لگے جس پر احسن اقبال نے اعتراض اٹھایا اور کہا کہ آرام سے بات کریں،
احسن اقبال کے اعتراض کے بعد وزیر خزانہ نے دھیمے لہجے میں بات کرنی شروع کردی۔گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے کمیٹی کو بتایا کہ جب سے اسٹیٹ بینک کے ایکٹ کے حوالے سے میڈیا پر بحث شروع ہوئی ہے، کافی ساری فیک نیوز چل رہی تھیں کہ اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کو بیچا جا رہا ہے، اسٹیٹ بینک کی اونرشپ حکومت پاکستان کی ہے اور اس بل میں بھی حکومت پاکستان ہی کی رہے گی، گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے کہا کہ میں نے آئی ایم ایف سے استعفی دیا ہے،میری صرف پاکستان کی شہریت ہے، میں لاہور میں پیدا ہوا اور لاہور میں تعلیم حاصل کی۔ رکن کمیٹی احسن اقبال نے کہا کہ کیا ہم نے اس بل کو اس حالت میں پاس کرنا ہے؟ بورڈ میں چیئرمین پلاننگ کمیشن کیوں نہیں ہے،
آئی ایم ایف ہم سے بالاتر نہیں ہے،چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ میں نے اس بل کی ایک ایک شق کو دس دفعہ پڑھا ہے،آپ سب کو بل بھجوایا، تحریک انصاف کی حکومت پہلی بار آئی ایم ایف کے پاس گئی،پہلے نو دفعہ ایک حکومت نے گھٹنے ٹیکے ایک حکومت نے چار دفعہ گھٹنے ٹیکے۔رکن کمیٹی نفیسہ شاہ نے کہا کہ پارلیمنٹری اوور سائیٹ آپ نے اور کمزور کر دی ہے۔ رکن کمیٹی مولانا عبدالواسع نے کہا کہ ریاست کے اندر ریاست نہیں بنانا چاہیے، الیکشن سے پہلے وزیراعظم کی تقاریر واضح ہیں، ہم اس بل کے پاس کرنے کے مخالف ہیں،
آئی ایم ایف کی شرائط کے خلاف ہیں۔ احسن اقبال نے کہا کہ اس بل کا شق وار جائزہ لیا جائے،ہمیں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے ،میں نے اس طرح کا مبہم قانون نہیں دیکھا،آپ پارلیمنٹ کی خودمختاری پر قدغن نہیں لگا سکتے، وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ میں نے ایف بی آر کو بھی خودمختار بنانا ہے، اس موقع پر کمیٹی نے کثرت رائے سے بل کی منظوری دے دی جبکہ اپوزیشن نے بل کی مخالفت کی