قومی اسمبلی

قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے بجٹ پر عام بحث ساتویں روز بھی جاری رہی ، اپوزیشن کی شدید تنقید

اسلام آ باد (رپورٹنگ آن لائن ) قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے بجٹ پر عام بحث ساتویں روز بھی جاری رہی ، اپوزیشن اراکین راجہ پرویز اشرف، جاویدلطیف، امیر حیدر ہوتی و دیگر نے بجٹ پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کو اڈے نہ دینا بہت اچھا اقدام ہے لیکن اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ سرحد پار دہشت گردوں کی آمد رفت نہ ہوں، ایوان کو جان بوجھ کر بے تو قیر کیا جا رہا ہے ، آئین کی بات کرنے والا غدار کیسے ہے، ایوان اگر فیصلہ نہیں کرسکتا کہ غدار کون ہے اور کیوں ہے تو اس پارلیمان کو تالہ لگادیں، حکومت قانون سازی کرتے ہوئے اپوزیشن کو بلڈوز کرے گی تو شورشرابہ اور افرا تفری پید ا ہوگی،

عام شہری تک بجٹ کے ثمرات پہنچنے چاہیں ، حکومت نے تین سال اس بات پر گزار دئیے کہ کام کی بجائے گالیاں دینا اور لینا شروع کردیں، عوام کا تین سال کا وقت الزام تراشیوں میں ضائع ہوگیا،ایک وزیر کی انشورنس کمپنی کو کامیاب بنانے کیلئے سٹیٹ لائف انشورنس کو ناکام بنایا گیا،ایف بی آر کو گرفتاریاں کرنے کا اختیار کیوں دیا جارہا ہے، اس سے ٹیکس دینے والے طبقے کو خوفزدہ اور بلیک میل کیا جائے گا،

آئی ایم ایف اور فیٹف کی ڈکٹیشن پر بھونڈے انداز میں قانون سازی کی جارہی ہے، ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان کو مشکل میں ڈالا جارہا ہے، ایسے حالات پیدا کیے جارہے ہیں جو آنے والی حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرے گا، بجٹ میں ایسے لگتا ہے جیسے کینسر کے مریض کا علاج اسپرین سے کیا جارہا ہ ، 18 ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو وسائل فراہم نہیں کئے گئے، تمام صوبوں کو ایف سی ایوارڈ 18 ویں ترمیم کے تحت دئیے جائیں جبکہ وزیر اقتصادی امور عمر ایوب، وزیر موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل اور وزیر دفاع پرویز خٹک و دیگر نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن)نے اپنے کھانچے لگانے کے لیے ملک کو سیکڑوں ارب روپے کے ٹیکے لگائے،

مسلم لیگ (ن)کی حکومت معیشت کا دیوالیہ نکال چکی تھی، انہوں نے تحریک انصاف کی حکومت کے لیے بارودی سرنگیں بچھائیں، دشمن بھی جنگ کے بعد نقشہ دے دیتے ہیں کہ بارودی سرنگ کدھر ہیں، انہوں نے نقشہ بھی نہیں چھوڑا اور ہمیں خود یہ سرنگیں ڈھونڈنی پڑیں،، اب عمران خان کی قیادت میں سر اٹھا کر چلنے کا وقت آ گیا ہے ،اپوزیشن چیخنے سے پہلے بجٹ کی کتابیں پڑھ لیا کریں، پاکستان کی تاریخ میں پہلا بجٹ ہے جس میں کسانوں کر ریلیف دیا گیا ہے، سخت مشکلات کے باوجود سرکاری ملازمیں کی تنخواہ میں 10فیصد اضافہ ہوا ،ہم اپوزیشن کا ان کی کرپشن میں مقابلہ نہیں کرسکتے۔

اپوزیشن کے ارکان ہم پر ایسے تنقید کرتے ہیں جیسے ان کے دور میں دودھ شہد کی نہریں بہتی تھیں،ملک قرضدار نہ ہوتا تو آئی ایم ایف کے پاس نہ جاتے،ملک میں لوگوں کے پاس گاڑیاں ہیں اچھا رہن سہن ہے،غربت کا سارا ڈرامہ ہے، بتائیں کہاں غربت ہے،ہمارے صوبے میں کوئی کچا گھر دکھا دیں مان جاﺅں گا ملک پیچھے جا رہا ہے،مہنگائی پوری دنیا میں ہو رہی ہے۔پیر کو قومی اسمبلی کا اجلاس پینل آف چیئرپرسن کے رکن امجد علی خان کی صدارت میں شروع ہوا، پاکستان پیپلز پارٹی کے راہنما سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں عام بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ بجٹ پر اپوزیشن کی تنقید اور تجاویز پارلیمانی نظام کا حصہ ہے، خواہش ہے کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے ، آج ہماری قائد شہید بینظیر بھٹو کی سالگرہ کا دن ہے، بینظیر بھٹو اس ایوان کی قائد ایوان اور اپوزیشن لیڈررہ چکی ہیں، اس ایوان نے کئی ادوار دیکھے، ڈکٹیٹر نے ایوان کے اختیارات سلب کیے،

صدر آصف علی زرداری نے تمام اختیارات اس ایوان کو واپس کیے، اس خاندان نے اس ایوان کی توقیر کیلئے جانوں کی قربانیاں دیں، خدا کرے جمہوریت کا یہ سفر رواں دواں رہے، جمہوریت میں مشکلات اور سخت وقت آتے ہیں،منزل کو سامنے رکھنے والی قومیں کامیاب ہوتی ہیں، جمہوریت ہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم کامیابی کی منزلیں طے کر سکتے ہیں، معاملات کو حد سے زیادہ آگے لیکر جانا اس ایوان کے ساتھ زیادتی ہے، یہ ایوان 22 کروڑ عوام کا نمائندہ ایوان ہے، عوام کے احساسات کی ترجمانی کرنا حکومت اور اپوزیشن دونوں کی ذمہ داری ہے، غصہ میں وہ حدود نہیں پھلانگنی چاہئیں، قانون سازی سے عوام کی زندگیاں آسان کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے،قانون سازی دونوں جانب کی مشاورت سے ہونی چاہیے، چند ووٹ زیادہ ہونے سے قانون سازی کرنے سے آدھے پاکستان کو ان کے حق سے محروم کیا جاتا ہے، حکومت قانون سازی کرتے ہوئے اپوزیشن کو بلڈوز کرے گی تو شورشرابہ اور افرا تفری ہوگی،

اس ایوان کو ایسے انداز میں چلایا جائے جو سب کیلئے باعث توقیر ہو، آمدن اور اخراجات کا تخمینہ بجٹ کہلاتا ہے، ہر حکومت کوشش کرتی ہے ایسے بجٹ لایا جائے جس سے ان کی نیک نامی ہو، جو مرضی معاشی اعشاریے لے آئیں آئیڈیل بجٹ نہیں بنایا جاسکتا، عام شہری تک بجٹ کے ثمرات پہنچنے چاہیئں، اگر معاشی اعشاریے اچھے ہوگئے ہیں تو پھر مہنگائی نے کیوں عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی، تین سال گزرنے کے بعد بھی وہی وعدے کیے جارہے ہیں جو الیکشن کے وقت کیے جاتے تھے، پانچ سالہ پروگرام تین سال میں آدھا مکمل تو ہونا چاہیے تھا، نوکریوں، گھروں، قرضوں کے وعدوں پر کس حد تک عملدرآمد ہوگیا ہے، وعدوں ہر ایک فیصد عمل نہیں ہوا تو کیا سمجھا جائے، آپ تو پہلے دن کام کرنے کی بجائے اپوزیشن سے دست و گریباں تھے،

شروع دن سے ہر ناکامی پر اپوزیشن کو چور ڈاکو کہا گیا آج بھی وہی رویہ ہے، تین سال اس بات پر گزار دیے کہ کام کی بجائے گالیاں دینا اور لینا شروع کردیں، کیا پانچ سال اپوزیشن پر الزامات لگانے کیلئے حکومت بنائی گئی، عوام کا تین سال کا وقت الزام تراشیوں میں ضائع ہوگیا، کسی قوم کا ایک ایک منٹ قیمتی ہوتا ہے ، پھر تین سال کیسے ضائع کردیے گئے،بجٹ کی حمایت کرنا حکومتی ارکان کی مجبوری ہے،جس پیپلز پارٹی پر تنقید کی جاتی ہے بتائیں اس دور میں آٹے کی قیمت کیا تھی اور آج کیا ہے، فوڈ سیکیورٹی کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا ہے ، آصف زرداری نے کاشتکاروں کو آسانیاں فراہم کرنے کی ہدایات دیں، پیپلز پارٹی دور میں پاکستان گندم ایکسپورٹ کرتا تھا، ایک ہزار ارب روپے سے زائد دیہی اکانومی میں انجیکٹ کیا گیا جس سے کسان خوشحال ہوا،اپوزیشن پرالزامات کے ہتھیار سے مزید کام نہیں چل سکتا،تقریروں سے نہیں عملی اقدامات سے غریب کی زندگی آسان ہوگی،حکومت سے قبل عمران خان جو وعدے کرتے تھے اج اس کا الٹ ہورہا ہے، ہر سال لاکھوں نوجوان یونیورسٹیوں سے نکل رہے ہیں ان کیلئے کیا منصوبہ بندی ہے، آج لاکھوں لوگ بیروزگار ہوچکے ہیں،

ایک وزیر کی انشورنس کمپنی کو کامیاب بنانے کیلئے سٹیٹ لائف انشورنس کو ناکام بنایا گیا،ایف بی آر کو گرفتاریاں کرنے کا اختیار کیوں دیا جارہا ہے، اس سے ٹیکس دینے والے طبقے کو خوفزدہ اور بلیک میل کیا جائے گا، آئی ایم ایف اور فیٹف کی ڈکٹیشن پر بھونڈے انداز میں قانون سازی کی جارہی ہے، ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان کو مشکل میں ڈالا جارہا ہے، ایسے حالات پیدا کیے جارہے ہیں جو آنے والی حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرے گا،آئیں ملکر مشاورت سے قانون سازی کریں،حکومت ایف بی آر کو گرفتاریوں کا اختیار دینے کی شق ختم کرے، حکومت فاٹا کی سٹیل انڈسٹری کو مراعات دے لیکن اس کا دوسرے صوبوں پر فرق نہیں پڑنا چاہیے، کون سا طبقہ ہے جو اس بجٹ سے فائدہ اٹھائے گا، کورونا کے باعث پڑھائی نہیں ہوئی اچانک طلبہ کے امتحانات لینے کا فیصلہ کیا گیا،

پورے ملک میں طلبہ آج سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں، اس حوالے سے حکومت اور اپوزیشن ارکان پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے جو امتحانات کا معاملہ دیکھے، الیکشن سے متعلق اپوزیشن کو بلڈوز کر کے حکومت نے قانون سازی کی، الیکشن کمیشن نے الیکشن بلز کی 13 شقوں کی نشان دہی کی جو آئین کے متصادم ہیں، بابر اعوان ایسا کوئی طریقہ نکالیں جس سے منظور شدہ بلوں پر دوبارہ بات ہوسکے، باہمی مشاورت سے ایسے قوانین بنائے جائیں جس سے صاف اور شفاف الیکشن کی راہ ہموار ہو۔

وفاقی وزیر عمر ایوب کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ(ن )نے اپنے کھانچے لگانے کے لیے عوام کو سیکڑوں اربوں کا ٹیکہ لگایا ہے، اتنا تو کوئی مچھلی بھی نہیں نگل سکتی۔ مسلم لیگ (ن)اور پیپلز پارٹی نے حقائق بیان نہیں کیے جس کی وجہ سے آج یہ اپوزیشن میں اور تحریک انصاف حکومت میں ہے۔ہم ماضی کی باتیں اس لیے یاد دلاتے ہیں کہ وہ حقائق کو تور مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن)کی حکومت معیشت کا دیوالیہ نکال چکی تھی، انہوں نے تحریک انصاف کی حکومت کے لیے بارودی سرنگیں بچھائیں۔

لیگی حکومت کے دور میں پلاننگ کمیشن کی 2018 کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ موجودہ حکومت اور سابقہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس ملک کا بیڑا غرق کیا ہے۔قائد حزب اختلاف نے کہا تھا کہ جھوٹ بولنے پر جھک کر معافی مانگوں کا، انہیں یہیں چٹائی بچھا کر سجدہ کرنا چاہیے اور معافی مانگنی چاہیے۔مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے 4 ہزار میگاواٹ کی قابل تجدید توانائی کو ختم کیا کیونکہ یہ ایل این جی لانا چاہتے تھے، تاہم تحریک انصاف کی حکومت نے ان تمام قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کو بحال کیا، شمسی توانائی کے منصوبوں کے ٹیرف انہوں نے 23 سے 24 روپے فی یونٹ طے کیا تھا اور عمران خان کی حکومت اسے 6.5 روپے فی یونٹ پر لے آئی۔

انہوں نے گردشی قرضوں کے بارے میں بات کی، کارخانہ لگا کر بجلی پیدا کریں کوئی خریدے یا نہ خریدے کرایہ دینا پڑتا ہے، 2013 میں ان کی حکومت آئی تو صلاحیتی ادائیگی 185 ارب روپے تھی، 2018 میں یہ 468 ارب روپے ہوگئی اور رواں سال 860 ارب روپے صلاحیتی ادائیگی تک جائیں گی اور 2023 تک ان کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے صلاحیتی ادائیگی 1455 ارب روپے تک جاسکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ وہ بارودی سرنگیں ہیں، کیا یہ معیشت کا دیوالیہ نکال کر نہیں گئے۔انہوں نے کہا کہ نندی پور پروجیکٹ کو مکمل کرنے کے لیے پی ایس او کو قابل ادا 62 ارب کسی اور مد میں لگادی گئی، اربوں روپے کا ٹیکہ لگایا گیا۔وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ یہ گرشی قرضوں کے بہاو کی بات کرتے ہیں، رواں سال یہ مسلم لیگ(ن)کی حکومت سے 118 ارب روپے کم ہے۔انہوں نے بتایا کہ 2 سالوں میں 49 ارب روپے ہم نے ٹرانسمیشن لائنز پر سرمایہ کاری کی۔

ان کا کہنا تھا کہ 2017 میں پنجاب حکومت نے چوتھا ایل این جی پلانٹ 1200 میگا واٹ کا بغیر کسی قانونی مسائل حل کیے منظور کیا، بجلی کے اداروں نے حکومت کو لکھا کہ ایسا نہ کریں یہ پلانٹ سال میں 90 فیصد وقت نہیں چلے گا مگر پھر بھی انہوں نے بنایا۔وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ دشمن بھی جنگ کے بعد نقشہ دے دیتے ہیں کہ بارودی سرنگ کدھر ہیں، انہوں نے نقشہ بھی نہیں چھوڑا اور ہمیں خود یہ سرنگیں ڈھونڈنی پڑیں۔ان کا کہنا تھا کہ ایل این جی کے معاہدے میں انہوں نے طے کیا کہ 70 فیصد لینا ہی ہوگا اور نہ لیا تو بھی ادائیگی کرنی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ قطر کے ساتھ 13.37 فیصد پر 5 سالوں کا معاہدہ کیا، 11 ماہ بعد دوسرے ٹرمینل کا 11.99 فیصد پر معاہدہ کیا، ان سب چیزوں کا اثر سالانہ 50 ارب روپے کا پڑ رہا ہے۔انہوں نے بتایا کہ قطر کے ساتھ نیا معاہدہ کر رہے ہیں اور پہلے سے کم نرخوں پر کیا ہے جس سے ملک کو 3 ارب 50 کروڑ ڈالر 10 سالوں میں ہوگی۔وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ایل این جی کو پیٹرولیم مصنوعات میں قرار دیا جبکہ وہ گیس ہے، آج اس کی وجہ سے 300 سے 350 ارب روپے کا گردشی قرضہ اس کی وجہ سے بڑھ گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جی آئی ڈی سی کا 295 ارب روپے ہم فائلوں میں ڈھونڈتے رہے مگر ہمیں نہیں ملا اور پھر کہتے ہیں کہ ہم معصوم ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن)نے اپنے کھانچے لگانے کے لیے عوام کو سیکڑوں اربوں کا ٹیکہ لگایا ہے، اتنا تو کوئی مچھلی بھی نہیں نگل سکتی اور نگل لے تو کم از کم ڈکار تو مارے مگر یہاں ڈکار بھی نہیں مارا جارہا۔مسلم لیگ( ن) کے رکن جاوید لطیف نے کہاکہ ان کے اعدادوشمار پر جائیں تو ہرطرف ہریالی نظر آنی چاہئے، ساڑھے آٹھ کھرب کا پیش کیا جانیوالا بجٹ سنتالیس فیصد قرضوں سے چلایا جائے گا، تین سالوں سے بجٹ میں ظلم کیا جارہا ہے، ایسے لگتا ہے جیسے کینسر کے مریض کا علاج اسپرین سے کیا جارہا ہے، پاکستان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ستر سالوں میں ملک کے آئین پر نہ عمل ہوا اور نہ کسی نے دیکھا، آئے روزکسی نہ کسی پر غداری کا الزام لگادیا جاتا ہے، مادرملت پر غداری کا الزام لگایا گیا پھر بیس سال بعد کہا گیا وہ غدار نہیں، ذوالفقار بھٹو کو پھانسی پر لگانے کے بیس بائیس سال بعد کہتے ہو وہ غلط سزا تھی، کسی کو ٹھوک دیا جاتا ہے اور کسی کو سمیش کرنے کی دھمکیاں، حب الوطنی کا سرٹیفیکیٹ ہمیں کون دے گا؟ ہمیں کسی سرٹیفیکیٹ کی ضرورت نہیں،

منتخب لوگوں کے ساتھ جیلوں میں کیا ہوتا ہے، کوئی نئی کہانی نہیں، ایک دفعہ آئین کی طاقت کو آزمائیں، پسے ہوئے لوگوں کی طاقت آزمائیں، جسٹس قاضی فا ئزعیسی انصاف دینے والا انصاف مانگ رہا ہے، جسٹس سیٹھ وقار ایک فیصلہ دیتے ہیں دس دن میں ان کا محاسبہ شروع ہوجاتا ہے، ہم پاکستان کے لئے قربانی دیتے آئے ہیں اور دیتے رہیں گے، ہم کسی طاقتور شخص کے پاکستان کو کھپے نہیں نواز شریف اور بھٹو کے پاکستان کو کھپے کہیں گے، ہم وہ پاکستان چاھتے ہیں جس کے لئے ھمارے اسلاف نے قربانیاں دیں، اگر کوئی کہے کہ ثاقب نثار کا فیصلہ درست ہے ارشد ملک کا فیصلہ درست ہے اور دس سال بعد ان فیصلوں کو غلط قراردیا جائے، یہ ایوان اگر فیصلہ نہیں کرسکتا کہ غدار کون ہے اور کیوں ہے تو اس پارلیمان کو تالہ لگادیں، آئین کی بات کرنے والا غدار کیسے ہے،؟عوام کے منتخب نمائندوں کو بولنے کا حق نہیں ، پرچی چیئرمین کہنے سے پہلے دیکھ لیں بلاول نے کیاقربانیاں دیں، مریم نواز کے جیل میں سیل میں کیمرے لگائے گئے، وہ قربانیاں دیکر لیڈر بنی ہیں،

عمران خان نے بیان دیا تھا کہ مجھے ہسپتا ل میں جب انجکشن لگے تو نرسز حوریں لگنے لگیں تھیں ۔عمران خان نے اس قوم کو تین سال جو ٹیکے لگائے ہیں اس قوم کو تو ہرطرف دوزخ نظر آتی ہے۔وزیر موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل نے کہا کہ میں نے وہ پاکستان بھی دیکھا جب کہا جاتا تھا کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں یہ مخالف ہیں ، یہ بتا دیں، 83ہزار پاکستانی ایک پرائی جنگ میں شہید ہوئے،128ارب ڈالر سے زائد ملک کی معیشت کا نقصان ہوا۔آ پ کسی کو اپنی قربانیاں مت دیکھائیں ، سب نے قربانیاں دیں ہیں، سابق وزیر اعظم امریکی سفیر کے سامنے ہاتھ باند ھ کر قطار میں کھڑا ہوتا تھا کہ شائد ہمیں ملاقات کا شرف بخشا جائے،ایک سابق وزیر اعظم امریکیوں کو کہتا تھا کہ ڈروں حملے کرتے جاﺅ اور پاکستانیوں کو مارتے جاﺅمیں صرف لفظی مخالفت کروں گا۔

عمران خان نے نو سال پہلے وانا میں ڈرون حملوں کے خلاف ریلی نکالی اور کہاتھا کہ میں پرائی جنگ کا حصہ نہیں بنوں گا اور کرائے کے قاتل نہیں بنیں گے،پلواما کے بعد انہوں نے بھارت کے وزیر اعظم کی آ نکھوں میں آنکھوں میں ڈال کر بات کی اور کہا کہ اگر آپ نے پاکستان پر حملہ کیا تو میرے پاس کوئی آپشن نہیں ہوگا سوائے کلمہ طیبہ کے، میرے وزیر اعظم نے سی آئی اے کے وفد سے ملنے سے انکار کیا اور کہا کہ میں صرف اپنے منصب سے ملوں گا، انہوں نے اینکر کو امریکہ کے اڈے دینے کے سوال پر کہا کہ پاکستان امریکہ کو اڈے نہیں دے گا، یہ ہے وہ پاکستان جس کا خواب ہم نے پاکستانیوں کو دیکھا یا تھا، اب عمران خان کی قیادت میں سر اٹھا کر چلنے کا وقت آ گیا ہے۔

اپوزیشن چیخنے سے پہلے بجٹ کی کتابیں پڑھ لیا کریں، مدینہ کی ریاست میں غریبوں کے لئے احساس پروگرام کے تحت 260ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔پاکستان کی تاریخ میں پہلا بجٹ ہے جس میں کسانوں کر ریلیف دیا گیا ہے۔جب کسان خوش حال ہو گا تو پاکستان خوش حال ہو گا۔ سخت مشکلات کے باوجود سرکاری ملازمیں کی تنخواہ میں 10فیصد اضافہ ہوا ، مزدور کی تنخواہ 20ہزار ہوگئی ہے، تمام پاکستانیوں کو ویکسین مفت لگانے کے لئے رقم مختص کئے گئے ہیں۔ ماحولیاتی تحفظ کے لئے سب سے زیادہ رقم مختص کی گئی ہے ۔

ہم اپوزیشن کا ان کی کرپشن میں مقابلہ نہیں کرسکتے۔ امیر حیدر خان ہوتی نے کہاکہ پارلیمنٹ کو بے توقیر کرایا جا رہا ہے، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج وزیرستان اور سکھر، سیالکوٹ کی نمائندگی نہیں ہے، علی وزیر ، خورشید شاہ اور خواجہ آصف گرفتار ہیں، اگر یہ عوامی نمائندے اس پارلیمان میں ہوتے تو اپنے عوام کی نمائندگی کر لیتے، جب بھی این ایف سی کی بات ہوتی ہے تو کہا جاتا کہ 18 ویں ترمیم نے صورتحال خراب کر دیں ہیں، این ایف سی ایوارڈ کے معاملات پر حکومت کا کردار افسوسناک ہے، 18 ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو وسائل فراہم نہیں کئے گئے، تمام صوبوں کو ایف سی ایوارڈ 18 ویں ترمیم کے تحت دئیے جائیں، بجلی کی آمدن کا خیبر پختون خواہ کو حصہ نہیں دیا جا رہا، بجٹ میں جو فیگرز بتائے جاتے ہیں وہ صوبوں کو نہیں دئیے جاتے، ضم شدہ قبائلی اضلاع کے لئے 3 فیصد این ایف سی میں اضافی دیا جائے گا لیکن کچھ نہیں دیا گیا،قبائلی اضلاع کے عوامی نمائندوں کو کچھ نہیں دیا جارہا ہے، تمام شہدا قابل احترام ہے، ہم ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ،

بدقسمتی سے ایک بار پھر دہشت گردوں اکھٹے ہو رہے ہیں ، اغواء برائے تاوان اور عسکریت پسندی روز بروز بڑھ رہے ہیں ، ہم ایک بار دہشتگردی کے جنگ سے گزرے ہیں دوبارہ کسی صورت اس جنگ میں نہیں کودنا چاہتے ، خدانخواستہ اگر افغانستان دوبارہ خانہ جنگی کی طرف بڑھا تو حالات ادھر بھی اور ادھر بھی نقصان دہ ہوں گے،امریکہ کو اڈے نہ دینا بہت اچھا اقدام ہے لیکن اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ سرحد پار دہشت گردوں کی آمد رفت نہ ہوں ،سپیکر اسد قیصر نے معاملے کو اہم قرار دے دیا اور کہاکہ ہ اہم معاملہ ہے اس پر ان کیمرہ اجلاس میں پارلیمنٹ کو بجٹ اجلا س کے بعد تفصیلی بریفنگ دی جائے گی۔

وزیر دفاع پرویز خٹک نے کہاکہ مجھ پر بھی پانچ سال تنقید کی گئی۔ دو سال اور تنقید کریں گے۔ یہ ہم پر تنقید کرتے جیسے ان کے دور میں دودھ شہد کی نہریں بہتی تھیں۔ملک قرضدار نہ ہوتا تو آئی ایم ایف کے پاس نہ جاتے۔دو سال بعد دیکھیں گے کہ قرضوں اور آئی ایم ایف سے جان چھوٹے گی۔ان کے دور میں کارخانے بند تھے آج چل پڑے ہیں۔ہماری حکومت نے انہیں مراعات دیں تو معیشت کا پہیہ چل پڑا۔ان کو عوام کی کوئی فکر نہیں تھی یہ تو حکومت میں مزے لینے آئے تھے۔یہ عوام کی خدمت کے لیے نہیں اتے حکمران بننے آتے ہیں۔جب ہم ائے تو 5 ارب ڈالر تھے اس سے ملک ایک ماہ بھی نہیں چل سکتا۔اس وقت قومی خزانے 25 ارب ڈالر کے ذخائر موجود ہیں۔کنسٹرکشن کو سابقہ دور میں کوئی مراعات نہیں دی گئی۔

خالی سرکاری نوکریوں سے روز گار نہیں ملتا۔سب سرکاری نوکری کرنا چاہتا کوئی محنت نہیں کرنا چاہتا۔ملک میں لوگوں کے پاس گاڑیاں ہیں اچھا رہن سہن ہے۔ بتائیں کہاں غربت ہے۔ہمارے صوبے میں کوئی کچا گھر دکھا دیں پھر میں مان جاﺅں گا کہ ملک پیچھے جا رہا ہے۔مہنگائی پوری دنیا میں ہو رہی ہے۔غربت کا سارا ڈرامہ ہے، ہمارے صوبے میں دکھا دیں چیلنج کرتا ہوں۔پرویز خٹک کے غربت سے متعلق جملوں پر حکومتی اراکین نے قہقہے لگائے۔حکومتی رکن نے کہاکہ کرک میں غربت ہے، پرویز خٹک نے کہاکہ وہاں ہو گی ملک میں کوئی غربت نہیں ہے۔عمران خان کے صحیح فیصلوں سے ملک کی اکانومی بہتر ہوئی۔

مہنگائی ہوگی تو ملک چلے گا کارخانے چلیں گے زراعت ہوگی ،مہنگائی نہیں بڑھے گی تو ملک رک جائے گا ، میں چیلنج کرتا ہوں میرے صوبے میں غریب ڈھونڈ کر دکھائیں۔پرویز خٹک کی تقریر کے دوران اپوزیشن اراکین نے لقمے دیئے تو انہوں نے کہاکہ اپوزیشن نے میری بات نہیں سننی تو باہر چلی جائے۔میں نے اپنی تقریر پوری کرنی ہے۔شہباز شریف کی 20 سالہ حکومت سے میری پانچ سال کی کارکردگی بہتر ہے۔نواز شریف کی کارکردگی بہتر ہوتی تو عوام انہیں مسترد کرتی۔