اسلام آ باد ( رپورٹنگ آن لائن) قومی اسمبلی میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی نے وفاقی وزیر گنڈا پور کی جانب سے ذوالفقار علی بھٹو کو غدار اور نواز شریف کو ڈاکو کہنے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے واک آﺅٹ کیا جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف)اور جماعت اسلامی کے ارکان واک آﺅٹ کا حصہ نہ بنے اور ایوان میں موجود رہے،حکومتی رکن راجہ ریاض نے بھی ذوالفقار علی بھٹو کو غدار کہنے کی مذمت کی ۔
دوسری جانب اپوزیشن نے داسو ڈیم کے عملے کی بس پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے پاکستان کی ترقی پر حملہ قرار دیدیااور ملکی سیکیورٹی صورتحال پر وزیر داخلہ ، امریکہ کی جانب سے ہوائی اڈﺅں نہ مانگنے سے متعلق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے وضاحت کا مطالبہ کر دیا۔اپوزیشن ارکان سید نوید قمر،مرتضیٰ جاوید عباسی و دیگر نے کہا کہ جو ہماری قیادت کو ڈاکو کہے گا ہم عمران خان کو ڈاکو کہیں گے ،جو آ ٹا اور چینی مافیا کا سردار ہے اس کو ڈاکو کہیں گے، وفاقی وزیر یہ الفاظ واپس لیں اور ایوان میں آ کر معافی مانگیں، ذولفقار علی بھٹو نے پاکستان کو ایٹم بم دیا۔
مشیر پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان اور علی نواز نے کہا کہ آج جو بزدلانہ حملہ کیا گیا اس کی مذمت کرتے ہیں، سی پیک منصوبوں پرسے کسی صورت توجہ نہیںہٹے گی اور نہ اس پرکام رکےگا، اگر کسی کو غلط فہمی ہے تو وہ دور کرلے، یہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کریں گے تو ہم بھی کریں گے،ذولفقار علی بھٹو نے کشمیر پر سرنڈر کیا اور کشمیر کو انہوں نے دو طرفہ بنایا اور معاہدہ کیا،ان کے دور میں ڈرون حملے ہوتے رہے، ہمارے لیڈ ر کو آنکھیں ڈال کر بات کرنا آ تا ہے، اگر یہ ہماری قیادت کے خلاف بات کریں گے تو ہم بھی بات کریں گے ۔
بدھ کو قومی اسمبلی اجلاس ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی صدارت میں شروع ہوا، مسلم لیگ(ن) کے راہنما احسن اقبال نے نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ میں ایوان کی توجہ قومی سلامتی کی جانب متوجہ کرانا چاہتا ہوں ، داسو ڈیم پاکستان کا قومی منصوبہ ہے اور وہاں پر تخریب کاری کی واردات ہوئی ہے،تقریباً10افراد کی شہادت کی اطلاع ہے ،بتایا جا رہا ہے اس حملے میں غیر ملکیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے، یہ پاکستان کی ترقی پر حملہ ہے،توانائی اور پانی کی جو سلامتی ہے اس پر حملہ ہے، ہمارے دور میں بھی سی پیک کے خلاف خطرات تھے ، ہزاروں چینی کام کر رہے تھے لیکن اس دوران ایسا کوئی حملہ نہیں ہوا کہ جس میں غیر ملکیوں کو نشانہ بنا یا گیا ہو، وزیر داخلہ اس واقعہ سمیت ملک کی سیکیورٹی صورتحال پر ایوان کو آگاہ کریں،
اہم شخصیات کی سیکیورٹی واپس لی جارہی ہے، اے این پی کی قیادت جس پر بار بار حملے ہوچکے اس سے بھی سیکیورٹی واپس لی جارہی ہے ، اہم شخصیات کی سیکیورٹی واپس لینا نامناسب ہے ، اگر بطور سابق وزیر داخلہ میرے پاس سیکیورٹی نہ ہوتی اور سیکیورٹی اہلکار حملہ آور کو نہ پکڑتا تو نہ جانے کیا ہوتا، وہ دوبارہ میرے اوپر گولی نہیں چلا سکا کیوں کہ سیکورٹی اہلکاروں نے اس کو پکڑ لیا تھا، اے این پی کے لوگوں پر حملے ہوئے ، ان کی نسلیں ختم ہوگئیں، ان کو نشانہ بنا یا گیا،دہشت گردوں نے ہماری سیاسی قیادت کو نشانہ پر رکھا ہوا ہے، ہمیں عوام کو خوش کرنے کے لئے ڈرامے نہیں کرنے چاہیے،
سیکورٹی صورتحال کے مطابق حکومت کے ذمہ داران ہیںاور جن سیاسی راہنماﺅں کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا ہے ان کی حفاظت ریا ست کی ذمہ داری ہے، دہشت گرد نفسیاتی طور پر قوم کو توڑنا چاہتے ہیں، میڈیا میں آ یا ہے کہ امریکہ نے تردید کی ہے کہ ہم نے پاکستان سے اڈے نہیں مانگے تھے، انہوں نے تو بتایا تھا کہ امریکہ نے اڈے مانگے تھے ہم نے انکار کردیا تھا، اس حوالے سے وزیر خارجہ ایوان کو آ گاہ کریں کیا امریکہ نے اڈے مانگے تھے یا ہم نے خود ساختہ انکار کیا تھا۔پیپلزپارٹی کی شمیم آ راءپنہور نے کہاکہ میں اس بات کی شدید مذمت کرتی ہوں کہ وفاقی وزیر نے ذولفقار علی بھٹو جس نے ملک کو آئین دیا اور ایٹمی قوت بنایا ، انہوں نے 90ہزار قیدی راہا کرائے تھے ،ان کے لئے غدار کا لفظ استعمال کیا، وفاقی وزیر یہ الفاظ واپس لیں اور ایوان میں آ کر معافی مانگیں، میں ایوان سے احتجاجاً ایوان سے واک آﺅ ٹ کرتی ہوں۔
مشیر پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے کہاکہ آج جو بزدلانہ حملہ کیا گیا ہے ، اس کی مذمت کرتے ہیں، پاکستان اور چین کے جو خصوصی منصوبہ جات ہیں ان سے کسی صورت توجہ ہٹے گی اور نہ اس پرکام ہٹے گا، اگر کسی کو غلط فہمی ہے تو وہ دور کرلے، وزیر داخلہ سے بات کروں گا کہ وہ سیکورٹی اور واقعہ کے بارے میں آ کر بریفنگ دیںاورایوان کو اعتماد میں لیں، جن لوگوں کو سیکورٹی خطرات ہیں،ایک تو یہ کلیئر کرلیا جائے کہ سی پیک کے تمام منصوبوں کے افراد کو سیکیورٹی دی جائے گی ، سی پیک ہمارے لئے بہت اہم ہے، ان کے بارے میں وزیراعظم نے کابینہ میں علیحدہ سے بات کی ہے ،لیکن شخصیات کے پروٹوکول اور سیکیورٹی میں فرق ہوتا ہے ، بعض بیوروکریٹس تو ایسے ہیں جن کا پروٹوکول وزیر اعظم اور چیف جسٹس سے بھی زیادہ ہے ، اگلے ہفتے کابینہ میں اہم شخصیات کی سیکیورٹی کا پلان پیش کیا جارہا ہے ، پروٹوکول پر قوم کے ٹیکس کے پیسے لگ رہے ہیں ، سیکورٹی کے حوالے سے خدشات کابینہ میں پیش کریں گے۔
وزیر اعظم عمران خان ایوان سے خطاب اور انٹرویو میں صاف کہہ چکے امریکہ کو اڈے نہیں دیں گے ، وزیر اعظم نے کہا ہم امن میں ساتھ جنگ میں ساتھ نہیںہے۔ وزیر خارجہ کو کہوں گا کہ وہ بات کریں گے، صابر حسین قائم خانی نے کہاکہ ہے کہ سند ھ میں پانی کی قلت ہوگئی ہے ، کراچی میں پینے کے پانی کی کمی ہے ،ذراعت کے لئے پانی دستیاب نہیں ہے، پانی چوری کیا جا رہا ہے، رینجرز کے ذریعے اس کی رکوائی جائے۔شاہدہ اختر علی نے کہاکہ محکمہ صحت گزشتہ کچھ دنوں سے اسلام آ باد میں جام ہے ، انہوں نے کوویڈ کے دوران فرنٹ لائن پر کام کیا، وزیر اعظم کی جانب سے ان کو جو ہیلتھ رسک الاﺅنس کا اعلان کیا گیا تھا ابھی تک ان کو نہیں ملا، اس لئے وہ احتجاج کر رہے ہیں کہ ان کا مطالبہ پورا کیا جائے۔ ان کا جائز مطالبہ پورا کیا جائے۔
پیپلزپارٹی کے راہنما سید نوید قمر نے کہاکہ کچھ ایسی ہستیاں ہیں جن کو تاریخی پہلو میں دیکھتے ہیں،قائداعظم ،لیاقت علی خان ،علامہ اقبال ،ذوالفقار بھٹو سمیت کئی ایسی شخصیات ہیں جن کی ہم ملک کے لئے اور قو م کی تعمیر کے حوالے سے خدمات سے انکار نہیں کر سکتے، تاریخی شخصیات کے بارے میں ایسی زبان استعمال کرنا اور ایسی شخصیات کے بارے میں بات کر کے پاکستان اور پاکستانی تاریخ کی بےحرمتی کر رہے ہیں، ہم اس طرح کسی جماعت نیچا نہیں دیکھا سکتے ، وزیر کی جانب سے ایسے بیانات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے اور دل دکھتا ہے ، ہمیں ایسی شخصیات کے بارے میں بات کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے،انہوں نے اور بھی باتیں کہیں ہیں ہم ایوان کی کاروائی کا حصہ نہیں بن سکتے ۔
وفاقی وزیر کی جانب سے ذوالفقار بھٹو کے خلاف غدار کا لفظ استعمال کرنے پر پیپلزپارٹی کا ایوان سے علامتی واک آوٹ کیا۔علی نواز اعوان نے کہاکہ نوید قمر نے کسی حد تک ٹھیک بات کی ہے،لیکن یہ معاملہ دو طرفہ طور پر ہونا چاہیے، یہ خود جلسوں میں بات کرتے ہیں، یہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کریں گے تو ہم بھی کریں گے،ذولفقار علی بھٹو نے کشمیر پر سرنڈر کیا اور کشمیر کو انہوں نے دو طرفہ بنایا اور معاہدہ کیا۔ان کے دور میں ڈرون حملے ہوتے رہے، ہمارے دور میں آ کر رکے ، ہمارے لیڈ ر کو آنکھیں ڈال کر بات کرنا آ تا ہے۔ اگر یہ ہماری قیادت کے خلاف بات کریں گے تو ہم بھی بات کریں گے ، سندھ کے اندر میں مستقبل دبا ﺅکیا جا رہا ہے ، بوٹی مافیا کا راج ہے، بچوں کے مستقبل کے خلاف کھیلا جا رہا ہے لیکن کاروائی نہیں ہو رہی، سند ھ میں پانی کی قلت ہے۔
مسلم لیگ(ن)کے رکن مرتضی جاوید عباسی نے کہاکہ کشمیر کہ الیکشن میں وفاقی وزراء وہ زبان ہماری قیادت کےخلاف استعمال کر رہے ہیں، جو گلی میں لڑتے ہوئے بچے بھی نہیں استعمال کرتے، وہ اپنی کارکردگی ضرور بیان کریں اور ہمارے خلاف جمہوری انداز میں بے شک تنقید کریں،ہماری قیادت کو ڈاکو کہتے ہیں، جب سے مریم نواز نے الیکشن کمپین شروع کی ہے ، ان کے پیٹ میں مروڑ پڑھنا شروع ہو گئے ہیں، جو ہماری قیادت کو ڈاکو کہے گا ہم عمران خان کو ڈاکو کہیں گے جو آ ٹا اور چینی مافیا کا سردار ہے اس کو ڈاکو کہیں گے۔بارشوں کی باعث قراقرم ہائی وے پرایوب پل خراب ہے، حویلیاں سے قراقرم ہائی بند ہے۔
این ڈی ایم اے پل کو بحال کریں۔ ہم ایوان سے وفاقی وزیر وں کے رویے سے واک آﺅٹ کرتے ہیں۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ( ن) کے واک آٹ کے دوران مذہبی جماعتیں نشستوں پر بیٹھی رہیں ، مرتضی جاوید عباسی اور رانا تنویر نے ایم ایم اے پارلیمانی لیڈر مولانا اسعد محمود کو قائل کرتے رہے ، جے یو آئی ایف اور جماعت اسلامی کے ارکان قومی اسمبلی اجلاس میں موجود رہے اور انہوں نے واک آ ﺅٹ نہیں کیا۔ اجلاس کے دوران حکومتی رکن بھی قومی اسمبلی ایوان میں شہید ذوالفقار بھٹو کے خلاف وفاقی وزیر کے بیان پر بول پڑے، حکومتی رکن راجا ریاضنے وفاقی وزیر کی جانب سے ذوالفقار بھٹو کو غدار کہنے کی مذمت کی ، انہوں نے کہاکہ ذوالفقار بھٹو شہید ہیں اور جو آج پاکستان کا وجود برقرار ہے وہ ایٹم بم کی وجہ سے ہے جو ذولفقار علی بھٹو نے بنایا تھا، میں ان کو غدار کہنے کی شدید مذمت کرتا ہوں، انہوں نے پاکستان کو بے شمار تحفے دئیے ، ان کی وجہ سے ہم آ ج عزت سے جی رہے ہیں،وفاقی وزیر سے کہتا ہوں جو لوگ زندہ ہیں انکے بارے میں جو مرضی کہیں شہیدوں کو بیچ میں مت لائیں۔پیپلزپارٹی کے نواب یوسف تالپور نے کہاکہ ذولفقار علی بھٹو نے پاکستان کو ایٹم بم دیا۔
جب وہ فرانس گئے تھا تو میں ان کے وفد میں تھے ، فرانس کے صدر نے ان کو کہا جو آپ کو چاہیے مدد کے لئے تیار ہیں،ان کو ہنری کسنجر نے دھمکی دی تھی کہ آ پ جو کر رہے ہیں اس کی قیمت ادا کرنی پڑےگی ، انہوں نے کہاکہ گردن کٹوادوں گا لیکن اپنے ملک کے لئے کام کرتا رہوں گا۔اس کے بعد انہوں نے کورم کی نشاندی کی،جس پر کورم نامکمل نکلا تو ڈپٹی سپیکر نے اجلاس کورم کے مکمل ہونے تک معطل کردیا۔بعد ازں حکومت کورم پورا کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی ، جس کے بعد ڈپٹی سپیکر نے اجلاس جمعہ کی صبح ساڑھے دس بجے تک ملتوی کردیا۔