قربانیاں

قربانیاں دیکر دستور بنایا اب اسے بچانا ہے، بلاو ل بھٹو

اسلام آباد(رپورٹنگ آن لائن)پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاو ل بھٹو نے کہا ہے کہ قربانیاں دیکر دستور بنایا اب اسے بچانا ہے اسمبلی میں اہم قانون زبردستی پاس کرائے جاتے ہیں اپوزیشن کو بولنے کا موقع نہیں دیا جاتا ہے تمام جماعتیں ایک ہو کر حساب مانگیں گی پارلیمان کو بھی آزاد کرانا ہوگا

پاکستان بار کونسل کی اے پی سی سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہاکہ پاکستان پیپلزپارٹی کو شہداء کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، ریاست نے میرے خاندان والوں کو ایک ایک کرکے شہید کیا ہے، میرے نانا کو پھانسی پر چڑھایا گیا ، میر مرتضیٰ بھٹو کو میری والدہ کی حکومت کے دوران کراچی کی سڑکوں پر قتل کیا گیا ، شاہ نواز بھٹو کو 27 سال کی عمر میں زہر پلا کر شہید کیا گیا۔

میری والدہ کو راولپنڈی میں بم دھماکے میں شہید کیا گیا۔ ہم فخر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہم آج آپ کے درمیان ہیں آپ میں سے زیادہ تر شہید ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ان کے ساتھ تھے۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کو کافر، غدار کہنے و الے آج شہید ماننے کو تیار ہیں ہم اس پر فخر کرتے ہیں۔ شہید محترمہ کے بہت سے قریبی ساتھی میرے اردگرد بیٹھے ہیں۔ انہوں نے 30 سال کی جدوجہد میں ساتھ دیا۔

ہم ان کے شکر گزار ہیں وہ بھی ہمارے ساتھ موجود ہیں جوشہید محترمہ کو کہتے تھے کہ آپ خاتون ہو آپ اس ملک کی وزیراعظم نہیں ہوسکتیں وہ لوگ بھی موجود ہیں شہید محترمہ کو کرپٹ کہتے تھے آج وہ محترمہ کو شہید مانتے ہیں ، ہم سے آج بھی غلطیاں ہوتی ہیں زندگی میں ہر کوئی غلطیاں کرتا ہے فخر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہم پر حملے بھی ہوتے ہیں۔ میڈیا پر ہماری اور ہمارے شہیدوں کی کردار کشی ہوتی ہے آج بھی ہم پر حملے ہوتے ہیں لیکن ہم اپنے موقف پر قائم ہیں ہم اپنے منشور پر قائم ہیں کبھی ہم کامیاب اور کبھی ناکام ہوتے ہیں لیکن ہمارا ایمان ہے کہ ہار جیت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔

پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے محنت کی یا آج جو ٹوٹی پھوٹی جمہوریت ہے اور میڈیا کو جو چھوٹی سی آزادی ہے وہ پیپلزپارٹی کی قربانیوں اور جدوجہد کا نتیجہ ہے آج پاکستان ایک ایسے وقت سے گزررہا ہے جہاں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہم مدینہ کی ریاست میں ہیں مگر کیا مدینہ کی ریاست کا یہ حال ہے کہ پاکستان کے مشہور موٹروے پر عورت کے ساتھ اجتماعی زیادتی اس کے بچوں کے سامنے ہوئی ہے عورت کا تحفظ جن کی ذمہ داری ہے وہ ملزمان کی بجائے متاثرین پر سوال اٹھاتے ہیں۔

آج ملک بھر میں سیلاب متاثرین ہیں صوبہ سندھ میں 2.5 ملین لوگ متاثر ہیں انکے گھر تباہ ہیں ان کی فصلیں برباد ہیں یہی صورتحال بلوچستان میں بھی ہے کے پی کے میں بھی سیلاب کے متاثرین موجود ہیں گلگت بلتستان میں بھی یہی حال ہے مگر میڈیا میں ان کیلئے آواز بلند کرنے کیلئے کوئی موجود نہیں ہے۔جب 2011 میں سیلاب آیا تو وفاق نے صف اول کا کردار ادا کیا ۔ ان کو وطن کارڈ اور معاوضہ دیا آج ہمارے سیلاب متاثرین لاوارث ہیں ان کی داد رسی کیلئے کوئی تیار نہیں ہے مگر ہم اپنے آپ کو مدینہ کی ریاست کہتے ہیں جب ہم اس ملک کی اہم ترین قانون سازی کرنے جاتے ہیں وہ ہم آزاد ماحول میں نہیں کرتے۔

آج جتنی بھی قانون سازی ہورہی ہے وہ آئین و قانون کو بالائے طاق رکھ کر کی جارہی ہے ہمارے پارلیمان کو بے اختیار کرکے زبردستی پاس کرائی جاتی ہے۔ اپوزیشن کو اختلاف رائے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا ہے گزشتہ روز پارلیمان کا مشترکہ اجلاس سب کے سامنے ہے جس میں اسپیکر ہماری دوبارہ گنتی کے مطالبے کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ ہمارا یہ حق ہے کہ ہر ووٹ پر اسپیکر ہماری تعداد گنے اگر ہماراووٹ نہیں گنا جائے گا ہماری آواز نہیں سنی جائے گی تو ہم جیسی جماعتیں بھی سوچنے پر مجبور ہوں گی کہ آخر کب تک ہم اس پارلیمان کو ربڑسٹیمپ کی حیثیت میں دیکھنا چاہتے ہیں ہم جانتے ہیں مدینہ کی ریاست میں بولنے کی آزادی تھی مگر یہاں تو نام نہاد حکمرانوں کے پاس بھی وہ آزادی نہیں ہے۔

قائد حزب اختلاف اور ان کے ممبران کیلئے پا بندیاں ہیں مدینہ کی ریاست میں تو ہم انصاف کیلئے عدالت کی طرف دیکھتے ہیں اسلام نے ہمیں قانون اور حق دیا اسلام نے ہر شہری کو حقوق دئیے لیکن ہمارے نئے پاکستان میں ہر طبقے کے حقوق سلب کیے جارہے ہیں میڈیامالکان جو جمہوری حکومت کوکہتے تھے کہ ہم حکومتیں بناتے اور گراتے ہیں آج وہ پابندیوں اور مشکلات کاسامنا کررہے ہیں ،کل جو سیاست کے عادی تھے وہ سب انقلاب ووٹ اور انصاف کا نعرہ لگانے پر مجبور ہوگئے ہیں آج ہم میں دائیں بائیں بیٹھے سب کے سامنے ایک شکوہ کرنا ہے جب وکلاء تحریک میں پیپلزپارٹی نے ایک خودمختار موقف سامنے رکھنا چاہا۔

کیا آپ نے پیپلزپارٹی کے موقف کا ساتھ دیا۔ میں پوچھنا چاہتاہوں کہ دھاندلی آمریت سلیکٹڈ اور میڈیا کی آزادی صرف اور صرف پانامہ کے بعدشروع ہوا جب پیپلزپارٹی اینٹ سے اینٹ بجانے نکلی تھی تو کہتے تھے ہم صرف اپنی کرپشن بچانے کے بیانات دیتے ہیں جب ہم کہتے تھے کہ ایک بڑی جماعت کو صرف ایک صوبے تک محدود کیا جارہا ہے تو ہماری ایک نہ سنی گئی ۔ یہاں بیٹھی سب جماعتوں سے غلطیاں ہوئی ہیں انہوں نے کہاکہ پاکستان بار کونسل نے جو 3 پوائنٹ ہمارے سامنے رکھے ہیں یہ نئے نہیں ہیں۔

آج تو ہمیں ان تینوں پوائنٹس پر متفق ہوجانا چاہیے۔ چارٹر آف ڈیمو کریسی پر ہم نے بہت کام کیا تھا اور جو کام رہتا ہے وہ عدلیہ سے متعلق ہے ہمارے پاس موقع تھا ہم نے کرنا چاہا مگر کرنے نہ دیا گیا۔ 19ویں ترمیم کا ذکر کیا گیا میں اس سے 100فیصد اتفاق کرتا ہوں جو پارلیمنٹ سے زبردستی پاس کرایا گیا ایک ادارے کی طرف سے صاف دھمکی دی گئی کہ 1973 کی بالادستی کی بحالی جو ہم نے 18 ویں ترمیم کی صورت میں کی تھی جس کیلئے شہید محترمہ نے 30 سال جدوجہد کی اور جس کی جدوجہد میں محترمہ شہید ہوئیں اگر قانون سازی زور اور دھمکی سے کی جائے گی تو کوئی فائدہ نہیں ہے اور نہ ہی اس پارلیمان کا کوئی مستقبل ہے جیسے سینئر صحافی سہیل وڑائچ کہتا ہے کہ یہ کمپنی نہیں چلے گی ۔

جوڈیشل اپوائنٹمنٹ کا جو طریقہ ہے عوام نے اس کا فیصلہ کرنا ہے عوام کا فورم پارلیمان ہے میں اس فورم سے درخواست کروں گا 19 ویں ترمیم Repeal بحالی اپنی قرارداد میں شامل کریں ہم سب کا موقف ہے کہ ججز کی تعیناتی کا جو طریقہ ہے اس میں عوام کا سب سے زیادہ کردار ہونا چاہیے اس میں عدلیہ بار کونسل اور بار فورمز کا اِن پُٹ ہونا چاہیے ہم عرصے سے کرپشن کے کیسز بھگت رہے ہیں شہید محترمہ کی زندگی میں کون کونسے کیسز نہیں بنائے گئے تھے شکر ہے ہر کیس میں شہید محترمہ باعزت بری ہوئیں اگر آپ نے اس ملک کے ہر سیاستدان کو دباؤ کے تحت ڈنڈے اور عدالت کے ذریعے چلانا ہے تو آپ کوشش تو کرسکتے ہو لیکن بقول سہیل یہ کمپنی نہیں چلے گی انسانی حقوق کے بغیر کوئی بھی اپنا کام نہیں کرسکتا اس پر ہم سب سے ایک ہی بیان اور مطالبہ آنا چاہیے کہ انسانی حقوق پر ہم سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ 2020 میں آپ کتاب نہیں چھاپ سکتے ٹویٹ نہیں کرسکتے

۔ جماعت کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے آزادی کے ساتھ انٹرویو نہیں کرسکتے ورنہ انٹرویو کٹ جائے گا ۔ یہ زندہ قوموں اور جدید دنیا کا طریقہ نہیں ہے۔ میری پارٹی نے قربانیاں بہت دی ہیں اب ہم خون کا حساب چاہتے ہیں جس خون سے دستور بنا ہم نے اس دستور کو بچانا ہے۔ ہم نے 18ویں ترمیم این ایف سی ایوارڈ اور صو بوں کے وسائل اور عوام کے انسانی حقوق بچانا ہے۔ اب ہمیں اپنی حکمت عملی اور طریقہ کار کو یکساں کرنا پڑے گا اور سب کو اس جدوجہد کو آگے لے کر چلنا پڑے گا۔