لاہور ہائی کورٹ

فوجداری کارروائی میں ڈی این اے رپورٹ کو بطور ثبوت نہیں لیا جا سکتا، جسٹس طارق ندیم

لاہور(رپورٹنگ آن لائن) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق ندیم نے کہاہے کہ فوجداری کارروائی میں ڈی این اے رپورٹ کو بنیادی ثبوت کے طور پر نہیں لیا جا سکتا۔

لاہور ہائیکورٹ نے 19 سالہ لڑکی سے زیادتی کے بعد گلا کاٹ کر قتل کرنے کے مقدمے میں عمر قید پانے والے ملزم محمد عارف کو چھ سال بعد بری کر دیا، جسٹس طارق ندیم نے قانونی نکتہ طے کرتے ہوئے ملزم کی سزا کے خلاف اپیل پر گیارہ صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کر دیا۔جسٹس طارق ندیم نے فیصلے میں لکھا کہ موجودہ دور میں کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے ڈی این اے کا کردار بہت اہم ہے، عدالتوں کو یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ڈی این اے رپورٹ قانون کے مطابق ہے یا نہیں، یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ڈی این اے سیمپل محفوظ طریقے سے فرانزک کیلئے بھجوائے گئے ہیں یا نہیں۔

عدالتی فیصلے میں لکھا گیا کہ اگر ڈی این اے سیمپل محفوظ طریقے سے منتقل نہ ہوں تو اسکی رپورٹ پر بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا، فوجداری کارروائی میں ڈی این اے رپورٹ کو محض ایکسپرٹ شواہد کے طور دیکھا جا سکتا ہے، کسی بھی وقوعہ کی ڈی این اے رپورٹ کو صرف ماہرین کی رائے کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔فیصلہ میں کہا گیا اگر دیگر تمام شواہد غلط ہوں تو صرف ڈی این اے رپورٹ سے ملزم کو جرم سے لنک کرنا کافی نہیں ہے، شواہد کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ استغاثہ کا کیس شکوک وشبہات سے بھرا پڑا ہے۔

عدالت نے قرار دیا کہ ایسے شکی اور غیر حقیقی شواہد پر ملزم کی سزا برقرار نہیں رہ سکتی، ملزم پر الزامات انتہائی سنجیدہ ہیں لیکن صرف اس گراؤنڈ پر سزا نہیں دی جا سکتی، ملزم کے خلاف پیش کے گئے شواہد میں سنجیدہ قانونی نقائص ہیں۔عدالت عالیہ کے فیصلے میں کہا گیا کہ ملزم محمد عارف پر 2019 میں زیادتی اور قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، استغاثہ کے مطابق ملزم نے 19 سالہ لڑکی کو زیادتی کے بعد گلا کاٹ کر قتل کر دیا، استغاثہ کے مطابق ملزم نے لڑکی کی لاش کھیتوں میں پھینک دی، کوئی بھی گواہ واقعہ کے وقت موقع پر موجود نہیں تھا، استغاثہ کا سارا کیس تکنیکی شواہد کے سہارے کھڑا ہے.

تکنیکی شواہد کو کمزور شواہد کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔جسٹس طارق ندیم نے لکھا کہ استغاثہ کی کڑیوں سے کڑیاں ملانے کیلئے جائے وقوعہ پر آخری دیکھے گئے گواہوں کا سہارا لیا گیا، دو گواہوں نے بیان دیا کہ انہوں نے لڑکی کو ملزم کے ہمراہ کھیتوں کی طرف جاتے دیکھا تھا، ایسے گواہوں کو قانون کی نظر میں انتہائی کمزور گواہ جانا جاتا ہے۔عدالت نے فیصلے میں مزید کہا کہ میڈیکل رپورٹ میں لڑکی سے زیادتی کے کوئی شواہد نہیں ملے، عدالت ملزم کی سزا کالعدم قرار دے کر رہا کرنے کا حکم دیتی ہے، ملزم محمد عارف جیل میں ہے اسے فوری رہا کیا جائے۔