فارن فنڈنگ کیس

فارن فنڈنگ کیس سے پیچھے ہٹنے کیلئے چیئرمین سینیٹ کے عہدے کی پیشکش ہوئی، اکبر ایس بابر

اسلام آ باد (رپورٹنگ آن لائن ) پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی)کے بانی منحرف رکن اور پارٹی کے خلاف فارن فنڈنگ کیس دائر کرنے والے اکبر ایس بابر نے دعوی کیا ہے کہ مجھے یہ کیس واپس لینے کے لیے دھمکیاں دی گئیں اور چیئرمین سینیٹ کے عہدے کی پیشکش بھی ہوئی۔

الیکشن کمیشن کی اسکروٹنی کمیٹی میں پی ٹی آئی فارنگ فنڈنگ کیس کی سماعت میں پیش ہونے کے بعد اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اکبر ایس بابر نے کہا کہ اسکروٹنی کمیٹی کے پاس پی ٹی آئی کے اکاونٹس کی دستاویزات خفیہ رکھنے کا اختیار نہیں، کمیٹی کو تحقیقات کرنے اور حقائق تلاش کر کے الیکشن کمیشن کے سامنے پیش کرنے کی ذمہ داری تفویض کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ 28-29 ماہ تمام دستاویزات خفیہ رکھنے کے بعد اسکروٹنی کمیٹی نے 16 اگست 2020 کو جو رپورٹ الیکشن کمیشن میں جمع کروائی اسے خود کمیشن نے مسترد کردیا تھا۔

اکبر ایس بابر نے کہا کہ دستاویزات خفیہ رکھنے کے عمل سے بہت شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں، اس سے تمام عمل کی شفافیت پر سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ اسکروٹنی کمیٹی ان تمام دستاویزات کو خفیہ کیوں رکھ رہی ہے، اسکروٹنی کمیٹی کا کام تحقیقات کر کے حقائق سامنے رکھنا تھا تو ثبوتوں کو خفیہ کیوں رکھا جارہا ہے۔ منحرف رکن کا کہنا تھا کہ کیوں پاکستان تحریک انصاف کو عمران خان گزشتہ 6 سال سے این آر او دے رہا ہے اور اسکروٹنی کمیٹی سے این آر او لے رہا ہے، حقائق چھپا رہا ہے ؟ کیوں کہ بہت بڑے پیمانے پر غیر قانونی فنڈنگ ہوئی ہے، کیوں کہ بہت بڑے پیمانے پر کرپشن ہوئی ہے، یہ پیسا نکالا گیا ہے، وہ تمام تفصیلات ان اکاونٹس میں موجود ہیں جنہیں چھپایا جارہا ہے۔ اکبر ایس بابر نے مزید کہا کہ ہم اس کا مقابلہ کریں گے، ہم اسکروٹنی کمیٹی میں احتجاجا بیٹھے ہوئے ہیں کیوں کہ ہم نے یہ معاملات بارہا کمیٹی کے سامنے اٹھائے ہیں اور ان کا مقابلہ کریں گے جبکہ کمیٹی کے فیصلے کو بھی الیکشن کمیشن میں چیلنج کیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن کے تحریری احکامات موجود ہیں کہ تمام دستاویزات پبلک ریکارڈ کا حصہ ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی پی ٹی آئی نے دستاویزات خفیہ رکھنے کی درخواست کی تھی جو مسترد ہوئی۔ ایک سوال کے جواب میں اکبر ایس بابر کا کہنا تھا کہ میں انصاف کے حصول کے لیے پاکستان کے اداروں سے ہی رجوع کرسکتا ہوں، یہ فرسودہ نظام کے خلاف جنگ ہے، جب یہ کیس دائر ہوا تو عمران خان حکم امتناع کے لیے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی جانب بھاگا، تو ایک لحاظ سے اس نے اپنی شکست تسلیم کرلی۔ انہوں نے کہا کہ یہ عوام کا حق ہے کہ انہیں حقیقت کا علم ہو، میں نے یہ کیس صرف اس لیے کیا تھا کیوں کہ مجھے معلوم تھا اس ملک کے ساتھ بہت بڑا دھوکا ہونے جارہا ہے، میں اس دھوکے کا حصہ نہیں بن سکتا تھا۔

انہوں نے مزید کہا عمران خان کہتا ہے کہ مجھے مقابلہ کرنا آتا ہے جبکہ 6 سال سے یہ مقابلے سے بھاگ رہا ہے اور امپائر کی انگلی پکڑ کر چھپ رہا ہے، جس دن امپائر کی انگلی اس سے الگ ہوگئی ایسے حقائق لوگوں کے سامنے آئیں گے کہ دنیا دنگ رہ جائے گی۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب اسکروٹنی کمیٹی کا نوٹیفکیشن جاری ہوا اس میں جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کا کوئی ذکر نہیں تھا آج وہ اس عمل کو خفیہ رکھنے کے لیے اسے جے آئی ٹی کا رنگ دے رہے ہیں، جے آئی ٹی میں تو حساس اداروں کے افراد بھی ہوتے ہیں کیا کمیٹی میں وہ لوگ ہیں؟ بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کیا جے آئی ٹی آرڈر شیٹ جاری کرتی ہے، اسکروٹنی کمیٹی ہر اجلاس کے بعد اس دن کی کارروائی ریکارڈ کرنے کے لیے آرڈر جاری کرتی ہے، اگر جے آئی ٹی ہوتی تو اب تک سارے اکاونٹس سامنے اچکے ہوتے۔ ان کا مزید کہنا کہ ہم نے 6 اکاونٹس کی نشاندہی کی کہ ان کا آڈٹ کیا جائے لیکن انہوں نے اس سلسلے میں دفتر خارجہ یا ان ممالک کو خط بھی نہیں لکھا۔ اکبر ایس بابر نے کہا کہ جب سے میں نے یہ کیس دائر کیا مجھے جان سے مارنے کی بھی دھمکیاں موصول ہوچکی ہیں جو الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کا حصہ ہیں، جن لوگوں نے پیغام پہنچایا ان کی نشاندہی کر کے سیکریٹری داخلہ کو خط بھی تحریر کیا۔

انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ مجھ پر 3 کیس کیے گئے جن میں سے 2 میں جیت گیا جبکہ ایک واپس لے لیا گیا، مجھے ڈرانے دھمکانے اور اس کیس سے دستبراد کرنے کے لیے ہر قسم کی پیشکش کی گئی۔ اکبر ایس بابر نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ دنوں عمران خان کے ایک عزیز کی جانب سے مجھے یہ پیغام دیا گیا کہ آپ کو پارٹی کا کونسا عہدہ چاہیے نشاندہی کریں وہ عہدہ آپ کو دینے کے لیے تیار ہیں، اگر آپ چیئرمین سینیٹ بننا چاہتے ہیں تو اس کے لیے بھی ہم تیار ہیں، جس پر میں نے انہیں جواب دیا کہ مجھے اس دن اللہ اٹھا لے جس میں میں آپ کے معاملات میں شامل ہوں۔