لاہور(رپورٹنگ آن لائن)پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائنسز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں مرگی بڑی اعصابی بیماریوں میں سے ایک ہے جو دماغی خلیات میں خلل کے باعث” ڈس آرڈر” ہوتا ہے جبکہ اس بیماری میں مبتلا مریض کو وقتاً فوقتاً دورے پڑتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے مریض کی دیکھ بھال اور نگہداشت اس کے اہل خانہ کی مستقل ذمہ داری بن جاتی ہے جس کے لئے انہیں لمبے عرصے کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے عالمی یوم مرگی کے حوالے سے “پنز” میں منعقدہ آگاہی واک اور سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر پروفیسر محسن ظہیر،پروفیسر قاسم بشیر، پروفیسر اطہر جاوید، ایم ایس ڈاکٹر خالد بن اسلم،پروفیسر انور چوہدری، ڈاکٹر شاہد مختار،ڈاکٹر عرشی عارف کے علاوہ ڈاکٹرز،نرسز و پیرا میڈیکس کی کثیر تعداد موجودتھی جبکہ شرکاء نے مرگی کے مرض سے متعلق آگاہی،بچاؤ اور علامات کے حوالے سے بینرز اور پمفلٹس بھی اٹھا رکھے تھے۔پروفیسر خالد محمود کا کہنا تھا میڈیکل سائنس کی ترقی اور جدید ادویات مارکیٹ میں دستیاب ہونے سے مرگی کے مرض کا بہتر طریقے سے علاج ممکن ہو گیا ہے جس کی بدولت مرض پرقابو ماضی کے مقابلے میں آسان ہوگیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ نیورو میڈیکل سائنسز میں جدید رحجانات کی وجہ سے مرگی کے مرض کی تشخیص کیلئے عوام میں آگاہی ہونا ضروری ہے تاکہ لوگ توہم پرستی اور تعویز گنڈہ کروانے کی بجائے مستند معالج سے رابطہ کریں تاکہ مریض اعصابی بیماری سے بچ سکیں۔ پروفیسر خالد محمود نے بتایا کہ مرگی کے مریض کو ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوائیں اپنے ساتھ رکھنی چاہئیں اور ہاتھ پر بینڈ باندھنا چاہیے جس پر ان کی بیماری سے متعلق تحریر ہو اور بتایا گیا ہو کہ دورے پڑنے کی صورت میں ان کے پاس موجود دوا انہیں کھلا دی جائے۔ طبی ماہرین نے بتایا کہ پاکستان میں 5کروڑ سے زائد افراد مرگی میں مبتلا ہیں،پاکستان میں ہر ایک ہزار میں سے تقریباً 9افراد اس مرض سے متاثر ہیں۔انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں مرگی کی شرح 1فیصد سے0.5فیصد ہے جبکہ پاکستان میں اس مرض کی شرح 1فیصد کے لگ بھگ ہے جو کہ بہت زیادہ ہے۔انہوں نے بتایا کہ 50سال کے بعد مرگی ہونے کی اہم وجہ ہائی بلڈ پریشر، شوگر اور برین ٹیومر ہے جبکہ موثر اقدامات کے ذریعے اس بیماری پر قابو پا یا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر شاہد مختار نے مرض کی علامات بتاتے ہوئے کہا کہ مرگی کے دورے کے دوران مریض کا بے ہوش ہونا، زبان کا دانتوں کے بیچ میں آجانا، ہاتھ پاؤں کا مڑ جانا یا اکڑ جانا، آنکھوں کی پتلیوں کا اوپر چڑھ جانا، منہ کا سختی سے بند ہوجانا مرگی کی علامات ہیں جبکہ اس دورے کا دورانیہ 1 سے 2 منٹ کا ہوتا ہے اور اگر کسی مریض میں پانچ منٹ سے زیادہ یہ علامات برقرار رہیں تو اسے فوراً اسپتال لے جانا چاہیے۔انہوں نے بتایا کہ بچوں میں پائی جانے والی مرگی میں بچے کوئی بھی کام کرتے کرتے اچانک 10 سے 15 سیکنڈ کے لیے گم سم یا خاموش ہوجاتے ہیں،مرگی کے کچھ مریض اچانک کھڑے کھڑے نیچے گر جاتے ہیں اوراس میں سر پر چوٹ لگنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ڈاکٹر شاہد مختار نے مرگی کے دورے کے دوران احتیاطی تدابیر کے حوالے سے بتایا کہ مرگی کے دورے کے دوران مریض کے منہ پر کپڑا نہیں ٹھونسنا چاہیے، گلے کے گرد سکارف یا ٹائی ہو تو اسے ڈھیلا کر دیں، نوکیلی اشیاء دور ہٹا دیں تاکہ مریض زخمی نہ ہو اور کروٹ کے بل لٹا دیں تاکہ زبان حلق میں نہ جائے۔
میڈیا سے گفتگو میں ایم ایس ڈاکٹر خالد بن اسلم نے کہا کہ مرگی کے علاج کیلئے جدید ادویات کی دستیابی سے یہ مرض جاں لیوا نہیں رہا تاہم حادثات کی صورت میں ایسے مریض کے لئے خطرات آج بھی موجود ہیں۔ ڈاکٹر عرشی عارف کا کہنا تھا کہ مریض کو مسلسل ادویات و ڈاکٹرز کی رہنمائی کی ضرورت پڑتی ہے لہذا اچھے اور تجربات نیورو فزیشن کی خدمات سے استفادہ کرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ علامات میں تبدیلی یا مرض میں کمی و شدت کی صورت میں ادویات کو کم یا زیادہ کیا جا ئے۔انہوں نے بتایا کہ مرگی کے مریضوں کو اپنا طرز زندگی قدرتی رکھنا چاہیے، رات کو دیر سے سونا، ذہنی دباؤ،گرم
موسم، الکوحل کا استعمال، ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر کا زیادہ استعمال اس بیماری کو بڑھا سکتا ہے۔ اس موقع پر نرسنگ سپرٹینڈنٹ رضیہ شمیم، الماس ناز، کائنات، ثمرا ناصر، نومی راجا، سونیا، شگفتہ شبنم، آمنہ حیدر اور نازیہ و دیگر موجود تھیں۔
٭٭٭