برسلز (رپورٹنگ آن لائن)یورپین خارجہ امور کے سربراہ جوزپ بوریل نے کہا ہے کہ طالبان نے جنگ جیت لی ہے لہذا ہمیں اِن سے بات کرنی پڑے گی۔میڈیارپورٹس کے مطابق ان خیالات کا اظہار انہوں نے یورپین وزرائے خارجہ کے ویڈیو لنک کے ذریعے ہونے والے اجلاس کے بعد رات دیر گئے ایک پریس کانفرنس میں کیا۔انہوں نے کہا کہ یہ اجلاس افغانستان کی نئی صورتحال کے لیے یورپین یونین کا نقطہ نظر جاننے اور طے کرنے کے لیے بلایا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ اتوار کے بعد افغانستان میں طالبان کے ملک کے سیاسی اور فوجی کنٹرول سے ایک نیا سیاسی تحرک پیدا ہوا ہے۔اور یہ سب کچھ امریکی فوج کے انخلا کی آخری طے شدہ تاریخ 31 اگست سے پہلے ہوا ہے۔یہ نئی حقیقت امریکا کے نیٹو کے ساتھ مل کر 2001 میں شروع کیے گئے فوجی آغاز کے 20 سال بعد سامنے آئی ہے اس لیے ہمیں کابل میں حکام سے رابطہ کرنا ہی پڑے گا، وہ جو بھی ہوں!۔انہوں نے کہا کہ طالبان نے جنگ جیت لی ہے لہذا ہمیں ان سے بات کرنی پڑے گی تا کہ ایک ممکنہ ہجرت کی آفت، انسانی بحران اور افغانستان میں غیر ملکی دہشت گردوں کی واپسی کو روکنے کے ذرائع کی بندش پر جتنی جلدی ممکن ہو بات کی جا سکے۔جوزپ بوریل نے مزید کہا کہ ہم افغان حکام سے اس طرح ہی نمٹیں گے جیسے وہ ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی عورتوں اور لڑکیوں کے احترام کے بارے میں قبول کی جانے والی بین الاقوامی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے بارے میں چوکس رہیں گے، یقینی طور پر انسانی حقوق لیکن خاص طور پر عورتوں اور لڑکیوں کے بارے میں ہمیں بہت تشویش ہے۔
یورپین خارجہ امور کے سربراہ نے 2001 کے بعد سے مغربی اتحاد کی افغانستان میں تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ یہ سفر افغانستان میں 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے ذمہ دار القاعدہ سے لڑنے سے شروع ہوا ۔مغربی عزم القاعدہ کو تباہ کرنا تھا لیکن یہ عزم آہستہ آہستہ ایک جدید ریاست کی تعمیر کی طرف منتقل ہوا تاکہ انسانی حقوق خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کی آزادی اور بنیادی حقوق کی ضمانت دی جا سکے، آج 20 سال بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ مشن کا پہلا حصہ کامیاب ہوا اور دوسرا نہیں۔یورپین خارجہ امور کے سربراہ جوزپ بوریل نے اس دوران اپنی تین ترجیحات کا ذکر کیا جن میں سے ایک افغانستان میں پھنسے ہوئے اپنے شہریوں اور مغربی اتحادیوں کے لیے کام کرنے والے افغانوں کے علاوہ سول سوسائٹی کے ارکان، صحافیوں، دانشوروں، اور طالبان سے خوفزدہ افراد کے ملک سے فوری اور باحفاظت انخلا ، دوسرا یہ کہ طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد بڑے پیمانے پر یورپ کی جانب مہاجرین کی آمد کو روکنا اور تیسرا کابل میں موجود اتھارٹیز سے بات چیت کرنا شامل ہے،اس موقع پر انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں طالبان سے مطالبہ کرنا ہوگا کہ وہ عام شہریوں اور ان کی املاک سے متعلق اپنے وعدوں کا احترام کریں۔
اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی تشویش کا اظہار کیا کہ اگر آنے والے مہینوں میں موسمی صورتحال ایسے رہے جو خوراک کی پیدا وار کے لیے بہت خراب ہو تو اس سے مسائل بڑھیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے اعلان کیا کہ انسانی امداد جاری رہے گی۔انہوں نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم سے خاص طور پر طالبان کے حملے کے خلاف افغان فوج کی عسکری صلاحیت کی تشخیص کے بارے میں غلطیاں ہوئی ہیں۔کچھ ہی دنوں میں ایک ایسی فوج کے زوال سے ہر کوئی حیران رہ گیا ہے جس کے ہزاروں فوجیوں کو تربیت دینے کے لیے ہم نے بہت پیسہ اور بہت کوششیں خرچ کی ہیں۔