شہباز اکمل جندران۔۔۔
صحافیوں کو کورونا وائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے کوڈ آف کنڈکٹ نافذ کے نفاذ کے مقدمہ میں لاہور ہائی کورٹ نے وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات کو ڈائریکشن دی ہے کہ درخواست گزار کی کورونا وائرس کے دوران میڈیا کے لئے کوشش آف کنڈکٹ کے نفاذ کی درخواست کو نمٹایا جائے۔اور قانون پر عمل درآمد کیا جائے۔
صحافیوں کو کورونا وائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں پٹیشن ایڈووکیٹ شہباز اکمل جندران نے ایڈوکیٹ ندیم سرور کے توسط سے دائر کی۔
پٹیشن میں وفاقی حکومت اطلاعات، پیمرا، صوبائی حکومت،پی بی اے اور اے پی این ایس کو فریق بنایا گیا تھا
پٹیشن میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ
کورونا وائرس دنیا بھر میں پھیل چکا ہے اور لاکھوں جانیں لے چکا ہے۔ایسے میں عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ وائر س جلد ختم نہ ہونے کا امکان ہے۔اور دنیا کو اس وائرس کو ساتھ لے کر جینے کا طریقہ کار اپنا نا ہوگا۔
کورونا وائر س اور کووڈ 19کی موجودہ صورتحال میں حفاظتی تدابیر اور انسدادی اقدامات وقت کی ضرورت بن چکے ہیں۔اور ہر شعبے میں احتیاط کو بروئے کار لاتے ہوئے زندگی کو نئے سرے سے شروع کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ پہلا کیس 28فروری 2020کو سامنے آیاجس کے بعد کووڈ 19کے مریضوں اور ہلاک شدگان کی تعداد روز بروز بڑھتی ہی گئی۔کورونا وائر س نے بلاتفریق ہر شعبے اور ہر طبقے کو متاثر کیا
ایسے ہی شعبوں میں ایک شعبہ صحافت بھی ہے۔جس میں 25مئی 2020تک مجموعی طورپر 170سے زائد جرنلسٹس کووڈ19سے متاثر ہوئے۔جبکہ تین صحافی اس بیماری سے ہلاک ہوگئے۔متاثرین میں سب سے زیادہ تعداد لاہور کے صحافیوں کی ہے۔
جہاں لگ بھگ ایک سو صحافی کورونا کا شکار ہوئے۔اسی طرح اسلام آباد میں 25، کوئٹہ میں 20کے قریب، پشاور میں 15اور کراچی میں 10کے قریب، ملتان میں 6اور سکھر میں 8کے قریب جبکہ گوجرانوالہ میں مجموعی طورپر 2صحافی اس بیماری کا شکار ہوئے اور مجموعی طورپر 70سے زائد صحافی اس بیماری سے صحتیاب ہوئے۔
جبکہ حالیہ افسوسناک واقعے میں نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سینئر نائب صدر ارشد وحید چودھری کورونا وائرس سے انتقال کر گئے ہیں۔
پٹیشن میں بیان کیا گیا ہے کہ کورونا وائرس ایک ان دیکھا دشمن ہے۔جس کا کچھ پتا نہیں وہ کہا ں اور کیسے حملہ کردے ایسے میں صرف احتیاطی تدابیر اور حفاظتی اقدامات سے ہی اس بیماری سے محفوظ رہاجاسکتا ہے۔
لیکن بدقسمتی سے اس مشکل وقت میں حکومت اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا ہاوسز کی طرف سے ورکنگ جرنلسٹس کے حفاظت کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔
پٹیشن میں موقف اختیار کیا گیا کہ دنیا کے 215سے زائد ممالک کو متاثر کرنے والاکورونا وائر س یوں تو ہر جگہ موجود ہوسکتا ہے تاہم کچھ ہائی رسک علاقوں میں اس کی موجودگی کے امکانات مزید قوی ہوجاتے ہیں۔جیسے ہسپتال،مارکیٹس، شاپنگ مالز،رش اور بھیڑ بھاڑ والے مقامات،جلسے، جلوس، احتجاجی اجتماع، اور پریس کانفرنسسز۔ یہ سب وہ مقامات ہیں۔جہاں ایک صحافی کو فرائض کی انجام دہی کے سلسلہ میں جانا پڑتا ہے۔
لیکن بدقسمتی سے ملک میں صحافیوں کے لیے کورونا وائرس کے دوران ایسے مقامات پر رپورٹنگ کرنے کے حوالے سے کسی قسم کا ضابطہ اخلاق نافذ کیا گیا ہے نہی ہی صحافیوں کی حفاظت اور انہیں ان دیکھے دشمن سے محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات کئے گئے ہیں۔
دنیا بھر میں جنگوں کے دوران اور شورش زدہ علاقوں میں رپورٹنگ کی گائیڈ لائنز اور ضابطہ اخلاق بنائے جاتے ہیں۔لیکن جنگ سے بھی زیادہ خطرناک کورونا وائرس کی روپورٹنگ کے لیے پاکستان میں وفاقی یا صوبائی سطح پر کسی قسم کا ضابطہ نہیں بنایا جاسکا۔
عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ کورونا وائرس کے دوران ان ڈور اور خصوصا” آوٹ ڈور کوریج کرنے والے رپورٹرز، کیمرہ مین، فوٹو گرافر اور دیگر کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے میڈیا کوڈ آف کنڈکٹ جاری کیا جائے۔