جعفر بن یار۔۔۔۔
معروف صحافی اور قانون دان شہباز اکمل جندران نے لاہور ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس شجاعت علی خان کی عدالت میں انسانی نعشوں کی بے حرمتی کے خلاف رٹ پٹیشن فائل کررکھی تھی جس پر عدالت عالیہ نے فیصلہ سناتے ہوئے صوبائی حکومت کو
میڈیکل انسٹیٹیوشنز کو تعلیمی مقاصد کے لئے انسانی نعشوں کی فراہمی کے حوالے سے قانونی سازی کرنے اور مسودہ قانون کی تیاری کے لئے ڈرافٹ تیار کرنے کی خاطر کمیٹی تشکیل دینے کا حکم جاری کیا تھا۔
عدالت نے پٹیشنر ایڈووکیٹ شہباز اکمل جندران کو اہم معاملہ سامنے لانے پر بھری عدالت میں خراج تحسین پیش کیاتھا
درخواست گزار نے عدالت کےروبرو موقف اختیار کیا تھا کہ لاہور سمیت صوبے میں انسانی نعشیں بکنے لگیں ہیں۔جبکہ انسانی نعشوں کی سپلائی اور خریدوفروخت میں سرکاری ادارے بھی ملوث پائے گئے ہیں۔
درخواست گزار نے عدالت کو بتایا تھا کہ صوبے میں ایم بی بی ایس کے پہلے اور دوسرے سال کے طلبہ کے لئے انسانی نعشوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ایم بی بی ایس کے طلبہ انسانی نعشوں پر پریکٹیکلز اور تجربات کرتے ہیں۔
عدالتی فیصلے کی روشنی میں یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہو کی سینڈیکیٹ کا61واں اجلاس پیر کے روز وائس چانسلرپروفیسر جاوید اکرم کی سربراہی میں ہوا۔ اجلاس میں میڈیکل کی تعلیم کیلئے غیر شناخت شدہ انسانی نعشوں کے استعمال اور تقسیم پرقانون سازی کی تجویز کی منظوری دی گئی۔لاہور ہائی کورٹ کی ہدایت پر پروفیسر عارف رشید ملک اور ایڈوکیٹ نوشاب اے خان نے مجوزہ قانون کی اہم شقوں پر روشنی ڈالی۔
مجوزہ پنجاب ہیومن ٹشو ایکٹ2021ء کے تحت یو ایچ ایس جناح کیمپس میں جدید مردہ خانہ بنایا جائے گا جہاں غیر شناخت شدہ انسانی نعشوں کو محفوظ رکھا جائے گا۔مجوزہ قانون کے تحت تعلیمی مقاصد کیلئے ڈیڈ باڈیز کی فراہمی کیلئے یو ایچ ایس کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگی۔قانون کی منظوری کے بعد پنجاب کے تمام میڈیکل کالجز تعلیمی مقاصد کیلئے یو ایچ ایس سے ڈیڈ باڈیز حاصل کرسکیں گے۔
قبل ازیں اس حوالے سے کوئی واضح قانون موجود نہیں تھا۔اس بنا پر ایڈوکیٹ شہباز اکمل جندران نے لاہور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی۔ پروفیسر جاوید اکرم نے اس موقع پر کہا کہ غیر شناخت شدہ انسانی نعشوں کی میڈیکل کالجوں کو فراہمی کے حوالے سے قانون سازی وقت کی اہم ضرورت ہے۔اجلاس میں میڈیکل جرنلزم میں دو سالہ ماسٹر زڈگری پروگرام شروع کرنے اور فیکلٹی کی نئی تعیناتیوں کی منظوری دی گئی۔