لاہور (رپورٹنگ آن لائن)معاون خصوصی برائے داخلہ و احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ شہباز شریف کیس میں ایف آئی اے اگلے ہفتے چالان جمع کرائے گا، اس کے بعد شہباز شریف کی ضمانت کا معاملہ دیکھیں گے، شریف ڈائکٹرائن ججوں کو خریدتی ہے یا ان پر حملہ کرتی ہے، شریف ڈائکٹرائن کا وقت گزر چکا ہے،
ایون فیلڈ ریفرنس میں کیس کو التوا میں ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے، رانا شمیم کو تین سال بعد کیسے بیان حلفی یاد آگیا، بیان حلفی کا مقصد اسلام آباد ہائی کورٹ پر جاری مقدمے پر اثر انداز ہونا تھا، یہ بیان حلفی نواز شریف کے دفتر میں بنایا گیا ہے، نوے کی دہائی کی طرح آج عدلیہ پر دباﺅ ڈالنا ممکن نہیں ہے، رانا شمیم کے دستخط ایک سازش ہیں۔جمعہ کو لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے معاون خصوصی برائے داخلہ و احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ ضمانت کے لئے ملزم کا عدالت میں حاضر ہونا ضروری ہوتا ہے۔ شہباز شریف نے آج تک ایف آئی اے اور نیب کو جواب نہیں دیا۔
انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کیس میں ایف آئی اے اگلے ہفتے چالان جمع کرائے گا۔چالان کے بعد شہباز شریف کی ضمانت کا معاملہ دیکھیں گے۔ شریف ڈائکٹرائن ججوں کو خریدتی ہے یا ان پر حملہ کرتی ہے۔ معاون خصوصی احتساب نے کہا کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں کیس کو التوا میں ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ عدلیہ کو ابھی بھی متنازعہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ رانا شمیم کو تین سال بعد کیسے بیان حلفی یاد آگیا۔ بیان حلفی کا مقصد اسلام آباد ہائی کورٹ پر جاری مقدمے پر اثر انداز ہونا تھا۔
رانا شمیم نے عدالت میں بیان دیا تھا کہ میں نے کسی کو بیان حلفی نہیں دیا۔ شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ یہ بیان حلفی نواز شریف کے دفتر میں بنایا گیا ہے اور دستخط ہونے کے وقت ان کا پورا گینگ موجود تھا۔ نوے کی دہائی کی طرح آج عدلیہ پر دباﺅ ڈالنا ممکن نہیں ہے۔ چارلس گتھری کی آڈیو کا فرانزک موجود ہے۔ چارلس گتھری نے بتایا ہے کہ دستخط حسن نواز کے دفتر میں کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چارلس گتھری نے کہا کہ اسے کوئی بھی سروسز کے لئے گھر بلا سکتا ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا ہم اقتدار میں آکر رانا شمیم کو کوئی بڑا عہدہ دیں گے۔ رانا شمیم کے دستخط ایک سازش ہیں۔
چارلس گتھری کی جانب سے کسی قسم کی کوئی تردید نہیں آئی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدلیہ پر اثر انداز ہونے کے نکات پر فرد جرم عائد کردی۔ نواز شریف عدلیہ کے خلاف مرکزی کردار ہیں آنے والے دنوں میں مرکزی کردار کو بھی کہیں کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ نواز شریف لندن میں بیٹھ کر عدلیہ پر حملے کررہے ہیں۔ نواز شریف کے تمام جھوٹ ایک ایک کرکے بے نقاب ہورہے ہیں۔ شریف ڈائکٹرائن کا وقت گزر چکا ہے۔ شریف فیملی پرانے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے۔
نواز شریف باہر بیٹھ کر زیر سماعت مقدمات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔ شریفوں کی پریس کانفرنس میں فرمائشی سوال کئے جاتے ہیں۔ منی لانڈرنگ سے متعلق لیڈر آف اپوزیشن سے کوئی وضاحت نہیں ملی۔ اعتزاز احسن قانون دان ہیں وہ شریفوں کی سیاست کو سمجھتے ہیں۔ اسمبلی میں ان سے یا ان کے ترجمان سے ملاقات ہوئی تو ضرور پوچھوں گا۔ شہباز شریف سے پوچھا جائے تو وہ کہتے ہیں میرے بچوں سے پوچھیں۔ جمہوریت میں قانون کے اندر رہ کر کام کرنا ہوتا ہے۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ احتساب کا عمل دو طریقوں سے ہوسکتا ہے ایک طریقہ بادشاہت میں ہوسکتا ہے جبکہ دوسرا طریقہ جمہوری ہے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ لوگوںکو کمرے میں بند کرکے ریکوری کرنا بادشاہت میں ممکن ہے۔ جمہوری طریقے میں ثبوت عدالتوں میں پیش کئے جاتے ہیں۔ ہر جانب پاپڑ اور فالودے والے کے اکاﺅنٹ کھل رہے تھے۔ ماضی میں حکومتوں نے اداروں کو اپنا غلام بنا رکھا تھا۔ شہزاد اکبر کا مزید کہنا تھا کہ سترہ ہزار ٹرانزیکشن بے نامی اکاﺅنٹ میں لی گئی تھیں ماضی میں ایسے قوانین بنائے گئے جن پر عمل درآمد ممکن نہیں تھا۔ اس لئے ہم عدلیہ کے نظام میں بہتری کے لئے کوشاں ہیں2022انقلاب کا سال ہے۔
شہباز شریف اپنے بڑے بھائی نواز شریف کے فیصلے پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں۔ حکومتی سطح پر صدارتی نظام کے لئے کوئی کام نہیں ہورہا۔ اس ملک کو کونسا نظام چلائے گا یہ آئین طے کرے گا۔ آئین میں دو تہائی اکثریت سے ہی تبدیلی کی جاسکتی ہے۔ کسی ریفرنڈم سے صدارتی نظام نافذ نہیں ہوسکتا۔ تمام ادارے آزادانہ کام کررہے ہیں۔ تمام کیس درخواستوں کی جانچ پڑتال کے بعد آگے بڑھائے جاتے ہیں۔ رانا شمیم کے بیان حلفی کے پیچھے نواز شریف ہیں۔
رانا شمیم نے بیان حلفی آزادانہ طور پر نہیں دیا۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ نوٹری پبلک کا کسی بھی دستاویز کے متن سے تعلق نہیں ہوتا۔ نواز شریف کی جمع کرائی گئیں رپورٹس ایک ڈاکٹر کے خطوط ہیں۔ میڈیکل سے متعلق معاملات میڈیکل بورڈ طے کرتا ہے جس کی وجہ سے نواز شریف کو میڈیکل بورڈ کی ہدایت پر باہر جانے کی اجازت دی گئی تھی۔