خواجہ سعد رفیق

سیلاب سے لوگوں کا جو نقصان ہوا ہے وہ بیان سے باہر ہے،خواجہ سعد رفیق

جیکب آباد(رپورٹنگ آن لائن)وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ سیلاب سے بڑی تباہی آئی ہے لوگوں کا جو نقصان ہوا ہے وہ بیان سے باہر ہے، سندھ اور بلوچستان میں بہت زیادہ تباہی آئی ہے ، پاکستان بننے کے بعد ریلوے سسٹم کو کبھی اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا کہ ابھی ریلوے سسٹم تباہی کا شکار ہوا ہے، ریلوے ٹریک پانی میں ڈوب گیا ہے، ٹریک کا نیچے سے حصہ بہہ گیا ہے اوپر صرف پنجر باقی ہے ، پل ٹوٹ گئے ہیں، مین لائن ون پر کارگو فریٹ آپریشن چلا تورہے ہیں لیکن اس کو مستقبل کرنے میں ایک ہفتہ لگ سکتا ہے، ایم ایل ون میں مسافر آپریشن ابھی بحال ہونے میںوقت لگے گا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے سندھ کے دورے کے بعد بلوچستان روانگی سے قبل جیکب آباد ریلوے اسٹیشن پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

وفاقی وزیر ریلوے نے کہا کہ کوئٹہ کی جو لائن ایم ایل تھری کہلاتی ہے اس کا پل ٹوٹ گیا ہے وہ بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے، اس کے لیے این ایل سی، ریلویز اور صوبائی حکومت ہم سب ملکر کام کررہے ہیں اور امید ہے کہ دو سے تین ماہ کے دوران اس کو بحال کیا جائے گا ہماری کوشش جاری ہے جلدی پل بنایا جائے جس کے لیے کراچی کے ایک مشہور ڈیزائنر نے اس کا ڈیزائن مکمل کرلیا ہے چند روز میں این ایل سی اس پل کو بنانے کا کام شروع کرلے گی کیوں وہ ایریا ایسا ہے وہاں ہر کوئی کام نہیں کرتا وہ پل بنانا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیرہ اللہ یار بلوچستان سے ہماری ریلوے لائن جگہ جگہ سے ڈوبی ہوئی ہے اس پانی کو کیسے نکالنا ہے ہم اس پر سوچ رہے ہیں صوبائی حکومت کے ساتھ ملکر کوئی حل نکالیں گے کیوں کہ جب تک پورے ٹریک کا پانی نیچے نہیں جاتا تب تک اصل حالت سامنے نہیں آئے گی کہ نیچے کیا بچا ہے اور کتنا نقصان ہوا ہے ابھی کچھ وقت لگے گا فلحال ہم ٹائم دے نہیں سکتے کیوں کہ یہ بڑا سیلاب ہے ایسا سیلاب کبھی نہیں آیا اور تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی یہ جو پورا سسٹم بنا ہوا تھا وہ اس کے لیے بنا ہی نہیں تھا اس لیے سارا سسٹم مجروح ہوگیاہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے کوئٹہ چمن لائن بحال کرد ی ہے، دالبندین تفتان سیکشن بحال ہوگیا ہے، دالبندین کوئٹہ سیکشن بھی بحال ہونے والا ہے۔انہوںنے کہا کہ سیلاب نے ریلوے کے سسٹم کو بہت نقصان پہنچایا ہے اس لیے ہماری کوشش ہے کہ پانی کو نکالا جائے اس کے بعد ہی معلوم ہوگا کہ کتنا نقصان ہوا ہے اور باقی کیا بچا ہے اس لیے ہم نکلیں ہیں اور سندھ کے بعد بلوچستان کا دورہ کررہے ہیں تاکہ تمام صورتحال کا جائزہ لیا جاسکے۔