افغانستان

سکول ،کالج،یونیورسٹیاں اسلامی شریعت سے متصادم ہیں،افغانستان

کابل (رپورٹنگ آن لائن)افغانستان کی طالبان حکومت میں وزیرالامر بالمعروف و النہی عن المنکرکے وزیر محمد خالد حنفی نے کہا ہے کہ عصری تعلیمی ادارے، خصوصا جامعات(یونیورسٹیاں)، یہ اسلامی شریعت کے احکام سے متصادم ہیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق خالد حنفی نے یہ بات علما کے ایک مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

ان کا کہنا تھا کہ جامعات اور دیگر علمی مراکز انسانی آزادی کے تصور کو فروغ دیتی ہیں، جو کہ ان کے بقول، اللہ اور رسول کے احکام کے خلاف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلامی شریعت کے مطابق انسان آزاد نہیں، بلکہ ایک مملوک بندہ ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ انسان کے لیے اپنی زندگی کا راستہ خود چننے کا تصور قرآن و حدیث کے منافی ہے۔حنفی نے دین کو ایک طرزِ زندگی قرار دیا اور اس کی جدید و منحرف تشریحات پر تنقید کی، جن کے مطابق داڑھی منڈوانا، پینٹ کوٹ اور ٹائی پہننا، اور عورتوں کا بغیر حجاب کے باہر نکلنا جائز قرار دیا جاتا ہے۔

ان کے بقول، ایسے انحرافات جامعات میں باقاعدہ طور پر پڑھائے جاتے ہیں، جو نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے ذہنوں میں انسانی آزادی کا تصور راسخ کرتے ہیں۔حنفی نے الزام لگایا کہ یہ تعلیمی مراکز ان علوم کو سراہتے ہیں جن کی بنیاد غیر مسلموں نے رکھی، اور ان علوم کو باعثِ فخر قرار دیتے ہیں۔طالبان وزیر نے علما سے خطاب کرتے ہوئے کہا میدانی جنگ ختم ہو چکی ہے، اب قلم، دعوت اور میڈیا کی جنگ شروع ہو چکی ہے۔

علما کو مخاطب کرتے ہوئے خالد حنفی نے کہا کہ وہ ان نظریات کے خلاف کھڑے ہوں جو عقیدہ، فقہ اور حدودِ شرعیہ کے مخالف ہیں۔وزیر نے طالبان کے قائم کردہ اسلامی نظام کے دفاع کی ضرورت پر زور دیا، اور خبردار کیا کہ اگر بے حجاب عورتوں یا کھلے عام فقہی احکام کے مخالفین کے ساتھ نرمی برتی گئی تو اس سے طالبان کا نظام گر سکتا ہے۔خالد حنفی، جو طالبان کے امیر ملا ہب اللہ اخوند زادہ کے قریبی سمجھے جاتے ہیں، طالبان کے سب سے سخت گیر رہنماں میں شمار ہوتے ہیں۔ اگرچہ وہ ان لڑکیوں کے لیے نصاب تعلیم میں ترمیم کرنے والی کمیٹی کے رکن ہیں جسے ہب اللہ کے حکم پر تشکیل دیا گیا، لیکن وہ لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں اور مدارس و جامعات پر مسلسل تنقید کرتے ہیں۔

حنفی پر اقوام متحدہ اور یورپی یونین کی جانب سے پابندیاں بھی عائد ہیں، کیوں کہ وہ طالبان رہنما کی ہدایات پر افغان عوام پر سخت پابندیاں نافذ کرنے میں مرکزی کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ ان ہی کے تیار کردہ اخلاقی قانون میں خواتین کی آواز کو عور (پردہ) قرار دیا گیا، محرم کے بغیر گھر سے نکلنے اور چہرہ کھولنے پر پابندی لگائی گئی، جب کہ مردوں پر بھی لباس کے انتخاب، داڑھی منڈوانے اور ٹائی پہننے پر قدغنیں لگائی گئیں۔

اس کے علاوہ، وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر افغان میڈیا پر بھی اثر انداز ہوتی رہی ہے۔ اس نے جان داروں کی تصاویر نشر کرنے سے منع کیا، اور حالیہ دنوں میں موسیقی، ڈرامے اور سیریلز کو آن لائن پلیٹ فارمو سے ہٹانے کے احکامات جاری کیے۔اپنی تقریر کے اختتام پر خالد حنفی نے، جن کی وزارت افغانستان میں پابندیوں، سخت گیری اور مذہبی شدت پسندی کے سبب جانی جاتی ہے، اس بات پر زور دیا کہ طالبان کا پیش کردہ دین رواداری اور اعتدال پر مبنی ہے۔