فریم ورک

سپر اسٹار کے کیمرہ لینس میں پرندوں کی تصاویر سے عیاں ہوتا سبز ترقی میں مستحکم عالمی کردار

بیجنگ (رپورٹنگ آن لائن)حال ہی میں مشہور چینی اداکار لی شیان کا باغات میں پرندوں کی فوٹوگرافی کرنا ایک ہاٹ سرچ کے طور پر سامنے آیا ہے۔ انٹرنیٹ صارفین نے پرندوں کی فوٹوگرافی کرتے ہوئے اس سپراسٹار کی تصاویر پوسٹ کی ہیں اور دیگر علاقوں کے ثقافتی اور سیاحتی محکموں نے بھی اپنے ہاں پرندوں کی تصاویرشیئر کرتے ہوئے انہیں فوٹوگرافی کی دعوت دی ہے۔

دوسری جانب سائنسی چینلز نے بھی پرندوں کے بارے میں علم کو متعارف کروانے کے اس موقع سے فائدہ اٹھایا ہے . ریاستی پالیسی سے لے کر عوامی شعور اجاگر کرنے تک ، تمام افراد کا یہ ماحولیاتی تعامل چین کی سبز ترقی کی گہری تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے اور عالمی موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں چین کی مستحکم عوامی بنیاد کی بھی عکاسی کرتا ہے۔

حالیہ برسوں میں ، چین نے ادارہ جاتی جدت طرازی کے ذریعے ایک ٹھوس ماحولیاتی بنیاد قائم کی ہے ۔ دریائے زرد کے تحفظ کے قانون نے دریاؤں کے تحفظ کے لئے ایک نیا فریم ورک تعمیر کیا ہے ، قومی کاربن مارکیٹ نے اخراج میں کمی کی رفتار کو فعال کیا ہے ، پہاڑوں ، دریاؤں ، جنگلات ، کھیتوں ، جھیلوں ، گھاس کے میدانوں اور ریگستانوں کے مربوط انتظام نے ماحولیاتی تحفظ کو نئی شکل دی ہے اور قومی پارک کے نظام نے حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کا نیٹ ورک تشکیل دیا ہے۔

ان ادارہ جاتی اختراعات نے براہ راست ماحولیاتی فوائد کو جنم دیا ہے۔ دیہی علاقوں میں نامیاتی زراعت نے “صاف پانی اور سرسبز پہاڑوں” کو “سونے اور چاندی کے پہاڑوں” میں تبدیل کر دیا ہے اور شہروں میں “پاکٹ پارکس ” شہریوں کے لئے “گرین لانگس ” بن گئے ہیں۔

یہ صرف الفاظ ہی نہیں ہیں بلکہ اعداد و شمار بھی اس سبز انقلاب کی کامیابی کی تصدیق کرتے ہیں ۔سنہء 1964 سے 2000 کے درمیان ، چین میں پرندوں کی 104 اقسام کا اضافہ ہوا ۔ 2021 میں چین میں جنگلی پرندوں کی اقسام 1491 تک پہنچیں۔ صحرائے کبوچی میں 6,000 مربع کلومیٹر نخلستان بنایا گیا اور صحرائے تکلمکان کے کنارے پر 3،046 کلومیٹر طویل ماحولیاتی تحفظ کی ایک سبز باڑ بنائی گئی ہے ۔ساتھ ہی دنیا نے کرہ ارض پر سب سے بڑے مصنوعی جنگل “چائنا گرین” کا معجزہ بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔

چین کے ماحولیاتی تحفظ کے اقدامات نہ صرف لوگوں کو صاف پانی اور سرسبز پہاڑوں کے ماحولیاتی فوائد فراہم کر رہے ہیں بلکہ دنیا کی سبز تبدیلی میں بھی اہم کردار ادا کررہے ہیں ۔چین بیلٹ اینڈ روڈ سے وابستہ ممالک کے ساتھ گرین کوریڈور کی تعمیر کرے گا ، صحرا زدگی سے نمٹنے کے لئے افریقی ممالک کے ساتھ “سبز دیوار چین ” تعمیر کرے گا اور آب و ہوا پر جنوب-جنوب تعاون کے فریم ورک کے تحت ٹیکنالوجی کے اشتراک اور صلاحیت سازی سے ترقی پذیر ممالک کو مدد ملے گی ۔

اقوام متحدہ کی دستاویز میں “صاف پانی اور سرسبز پہاڑ انمول اثاثے ہیں” کا تصور لکھا گیا ہے، ” کاربن نیوٹرلٹی”اور “کاربن پیک” کے اہداف نے زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں چین کے جرات مندانہ عزم کو ظاہر کیا ہے اور “ماحولیاتی بحالی + صنعتی ترقی” کا ماڈل عالمی پائیدار ترقی کے لئے ایک مثال فراہم کرتا ہے.

بحرالکاہل کی دوسری جانب سپر پاور کے مقابلے میں، چین کے منصوبے میں زیادہ تزویراتی استحکام نظر آتا ہے۔سیاسی جماعتوں کے اختلافات کی وجہ سے امریکہ کی آب و ہوا سے متعلق پالیسی غیر مستحکم رہی ہے۔ہلری کلنٹن نےکیوٹو پروٹوکول پر دستخط کیے جنہیں کانگریس کی جانب سے مسترد کیا گیا اور یہاں تک کہ جارج ڈبلیو بش نےمکمل طور پر اس سے دستبرداری اختیار کی ۔

اوباما نےپیرس معاہدے کے دستخط کو فروغ دیا تھا،تاہم ٹرمپ نے دو بار ‘دستبرداری’ اختیار کی،اور پھر بائیڈن اس میں جلد بازی میں دوبارہ واپس آئے۔وہاں ماحولیاتی قوانین فوسل ایندھن یا صاف توانائی کی حمایت میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور گرین کلائمیٹ فنڈ کے لیے فنڈنگ بھی تعطل کا شکار رہتی ہے ۔ یوں “پینڈولم”کی طرح حکمرانوں کے بدلتے فیصلوں نے نہ صرف مقامی اتفاق رائے کو تقسیم کیاہے بلکہ عالمی آب و ہوا کی حکمرانی کی بنیاد کو بھی ہلا دیا ہے۔

تاریخ نے بار بار ثابت کیا ہے کہ ایک مستحکم پالیسی فریم ورک ترقی کی بنیاد ہے۔ جب سپراسٹارز کے لینس میں ماحولیاتی چمک دکھائی دے اور قومی عمل کی کہکشاں اس میں ضم ہو جا ئے تو صاف دکھاتا ہے کہ چین ادارہ جاتی لچک اور تزویراتی عزم کے ساتھ ماحولیاتی تحفظ اور معاشی ترقی کے درمیان ہم آہنگی میں وقت کے تقاضوں کا جواب دے رہا ہے۔عوامی سطح پر سرسبز ترقیاتی عمل سے بین الاقوامی سطح پر آب و ہوا کے وعدوں تک ، چین انسانی تہذیب اور فطرت کے مابین ہم آہنگی میں ایک نیا باب لکھنے کے لئے مختلف ممالک کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے ، اور عالمی خوشحالی اور ترقی کے لئے ایک مستحکم طاقت کے طور پر بھی ابھر رہا ہے ۔