اسلام آباد (رپورٹنگ آن لائن)چیف جسٹس آف پاکستان نے پاکستان اسٹیل ملز بند کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا تمام بقیہ ملازمین اور افسران کو آج ہی فارغ کریں گے، عملی طور پر اسٹیل مل کاکوئی وجود نہیں،پاکستان اسٹیل ملز کوورکرسے لےکر اعلی انتظامیہ تک سب نے لوٹا، اسٹیل ملز انتظامیہ اورافسران قومی خزانے پربوجھ ہیں، ملازمین سے پہلے تمام افسران کو سٹیل مل سے نکالیں،
سیکرٹریز کے کام نہ کرنے سے ہی ملک کاستیاناس ہوا،سیکرٹریز کوڈر ہے کہیں نیب انہیں نہ پکڑ لے، پہلے بھی تو سیکرٹریز کام کرتے تھے اب پتا نہیں کیا ہوگیا،تفصیلات کے مطابق جمعرات کوسپریم کورٹ میں پاکستان اسٹیل ملازمین کی پروموشن سے متعلق کیس پر سماعت ہوئی ، سماعت میں چیف جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا مل ہی بند پڑی ہے تو 439افسران کر کیا رہے ہیں؟ آج ہی ہم حکم جاری کرینگے کہ پاکستان اسٹیل کو بند کر دیں ، آج ہم اسٹیل مل کے ورکرز کو نوکریوں سے برطرف کردیں گے،نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس نے پاکستان اسٹیل کی حالت زار کا ذمے دار انتظامیہ کوقرار دیتے ہوئے کہا انتظامیہ کی ملی بھگت کے بغیر کوئی غلط کام نہیں ہوسکتا اور استفسار کیا کیا حکومت نے اسٹیل مل انتظامیہ کیخلاف کارروائی کی؟
جسٹس گلزار احمد نے پاکستان اسٹیل کی انتظامیہ کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا مل بند پڑی ہے توانتظامیہ کیوں رکھی ہوئی ہے؟ پاکستان اسٹیل کو کسی ایم ڈی یا چیف ایگزیکٹوکی ضرورت نہیں، پاکستان اسٹیل انتظامیہ اورافسران قومی خزانے پربوجھ ہیں، ملازمین سے پہلے تمام افسران کو سٹیل مل سے نکالیں،وکیل پاکستان اسٹیل نے بتایا کہ تمام انتظامیہ تبدیل کی جا چکی ہے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا انتظامیہ تبدیل کرنے سے کیا مل فعال ہو جائے گی؟
پاکستان کے علاوہ پوری دنیا کی پاکستان سٹیل منافع میں ہیں، پاکستان اسٹیل میں اب بھی ضرورت سے زیادہ عملہ موجود رہےگا،وکیل پاکستان اسٹیل شاہد باجوہ کا کہنا تھا کہ 1800سو سے زائد افسران تھے 439رہ گئے، پاکستان اسٹیل مل کا روزکاخرچ 2 کروڑتھا جو اب ایک کروڑ رہ گیا، اب تک 49فیصد ملازمین نکال چکے مزیدکیلئے عدالتی اجازت درکار ہے، لیبرکورٹ کی اجازت کے بغیر مزید ملازمین نہیں نکال سکتے،
جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اجازت براہ راست سپریم کورٹ دے گی، لیکن پہلے افسران کونکالیں تو وکیل نے بتایا کہ اسٹیل مل ملازمین میں اسپتال اور اسکولوں کاعملہ بھی شامل ہے،چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا کہ سیکرٹریز کے کام نہ کرنے سے ہی ملک کاستیاناس ہوا،سیکرٹریز کوڈر ہے کہیں نیب انہیں نہ پکڑ لے، پہلے بھی تو سیکرٹریز کام کرتے تھے اب پتا نہیں کیا ہوگیا، آج سے کسی ملازم کوادائیگی نہیں ہو گی، جب مل نفع ہی نہیں دیتی تو ادائیگیاں کس بات کی، ملازمین کو بیٹھنے کی تنخواہ تو نہیں ملے گی،وکیل ملازمین نے بتایا کہ پاکستان اسٹیل میں ملازمین کام کرنے کو تیار نہیں، چیف جسٹس نے کہا بعض لوگوں نے بھرتی سے ریٹائرمنٹ تک ایک دن کام نہیں کیا ، مل کا 212ارب کا قرضہ کون ادا کرے گا ؟ انتظامیہ اور ورکر کو ادارے کا احساس ہی نہیں ،
مفت کی دکان سے جس کا جوجی چاہتا لے جاتا ہے ، اسٹیل مل کو کسی بھی ورکر یا اافسر نے اپنا خون نہیں دیا، ورکر اپنے پیسے لینے کےلیے ٹریک پر لیٹ جاتے ہیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا مل بند ہے لیکن ملازمین ترقیاں مانگ رہے ہیں ، اسٹیل مل کبھی ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی تھی ،وکیل ملازمین کا کہنا تھا کہ مل بند پڑی ہے تو حکومت چلائے،سیکرٹری صنعت وپیداوار نے عدالت کو بتایا کہ نجکاری ایڈوانس مرحلے میں داخل ہو چکی ہے، رواں سال ستمبر میں نجکاری کا عمل ہوجائے گا ،
جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا 4ہزار ورکرز 212 ارب کے قرضے ،کون اسٹیل مل خریدے گا ؟چیف جسٹس سپریم کورٹ نے سوال کیا اسٹیل مل کے چیئرمین کہاں ہیں ، وکیل پاکستان اسٹیل مل نے بتایا چیئرمین بیرون ملک ہیں ، چیف جسٹس نے استفسار کیا اسٹیل مل کے چیئرمین سرکاری خرچے پر ہیں ،وکیل نے کہا چیئرمین اپنے خرچ پر باہر گئے، تنخواہ بھی نہیں لے رہے تو جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ سیکرٹری صاحب بابو والانہیں افسر والا کام کریں،دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جب مل ہی نہیں چل رہی تولوگوں کی کیا ضرورت ہے،پاکستان اسٹیل نے ایک دن کام کیے بغیر30سال کی تنخواہیں اورمراعات لیں، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا مل ایک ڈھیلانہیں بنا رہی اور ملازمین بونس مانگ رہے ہیں،
وکیل پاکستان اسٹیل ملز نے بتایا کہ مل اس لیے بند ہے کیونکہ مل کو گیس نہیں مل رہی، مل نے سوئی سدرن گیس کا 22ملین کابل ادا کرناہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا اسٹیل ملز کوورکرسے لےکر اعلی انتظامیہ تک سب نے لوٹا، آج سے کسی بھی اسٹیل ملز کےملازم کو ادائیگی سے روک دیتے ہیں، جب مل ہی نہیں چل رہی توتنخواہیں وہاں بیٹھنے کی نہیں مل سکتی،سیکریٹری صنعت وپیداوارعدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس نے استفسار کیا سیکریٹری صاحب اسٹیل ملزسے متعلق آپ کا کیا پلان ہے، سیکریٹری نے بتایا کہ حکومت پاکستان نے اسٹیل ملز کی نجکاری کاپراسس شروع کردیا ہے، آنےوالے اگست اور ستمبرتک نجکاری اپنے حتمی مراحل میں شروع ہوجائےگی،
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا سیکریٹری صاحب آپ خیالی دنیا سے باہر آئیں، 212ارب اور4ہزار ملازمین کی موجودگی میں کون مل خریدے گا، عدالت نے سیکریٹری نجکاری سیکٹر،وزیر نجکاری،چیئرمین پلاننگ کمیشن ، وزیرانڈسٹریز بھی طلب کرلیا پاکستان اسٹیل ملازمین کی پروموشن سے متعلق سماعت میں چیف جسٹس نے اسٹیل ملز بند نے کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا اسٹیل مل کے بقیہ 3700ملازمین اور مل کے 437میں سے 390افسران کوبھی آج فارغ کریں گے ،
آج سٹیل مل کو تالا لگانے کو حکم دیں گے،عملی طور پر اسٹیل مل کاکوئی وجود نہیں،چیف جسٹس سپریم کورٹ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ملک میں کوئی وفاقی سیکرٹری کام نہیں کر رہا، تمام سیکرٹریز صرف لیٹر بازی ہی کر رہے ہیں جوکلرکوں کا کام ہے، سمجھ نہیں آتا حکومت نے سیکرٹریز کوکیوں رکھا ہوا ہے؟