کراچی(رپورٹنگ آن لائن)سندھ ہائی کورٹ نے لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں پر پولیس کارکردگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے لاپتا شہری کی گمشدگی کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیدیا۔
بدھ کو سندھ ہائیکورٹ میں لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے پولیس کارکردگی پر برہمی کا اظہار کیا۔ درخواستگزار کے وکیل نے موقف دیا کہ بشیر تھانہ سائٹ اے کی حدود سے رواں سال جنوری سے لاپتا ہیں۔ عدالت نے تفتیشی افسر سے استفسار بتائیں سی ڈی آر کہاں ہے۔ تفتیشی افسر نے کہا کہ ہمیں ابھی تک نمبر نہیں دیا گیا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ نے رپورٹ میں یہ بات لکھی ہے کہ آپ کو نمبر نہیں دیا گیا۔ سرکاری وکیل نے موقف دیا کہ تھانے کی حدود پر تنازع ہے، اب موجودہ تفتیشی افسر کو تفتیش ملی ہے۔
عدالت نے تفتیشی حکام سے استفسار کیا کہ آپ لوگ اب تک کیا کر رہے تھے۔ تفتیشی افسر نے کہا کہ ہم نے مسجد کے موذن کا بھی بیان لیا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے مسجد کے موذن کے بجلی کا بل کیوں لیا۔جسٹس ظفر احمد راجپوت نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے نہ مغوی کا نمبر لیا نہ شناختی کارڈ۔ تفتیشی افسر نے کہا کہ رہائشی ثبوت کیلئے مسجد کا بل لیا موذن سے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اگر ان کی تفتیش یہی معیار ہے اپھر ان کا اللہ ہی حافظ ہے۔ عدالت نے لاپتا شہری کی گمشدگی کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیدیا۔
درخواستگزار کے وکیل نے موقف دیا کہ محمد بلال کو پولیس موبائل میں اٹھایا گیا۔ ہم نے درخواست میں پولیس موبائل کا بھی ذکر کیا لیکن مقدمے میں پولیس موبائل سے ملتی جلتی گاڑی کا ذکر کیا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے پھر مقدمے پر دستخط کیوں کییے۔ درخواستگزار کے وکیل نے موقف دیا کہ ہماری دکان میں پھر دو پولیس موبائل والے آئے تھے۔ جس میں لاپتا شہری کو بھی لیکر آئے تھے۔ پولیس نے وہاں پستول رکھا اور ان کو کہا کہ اب یہ پسٹل اٹھائو۔پھر ان کو دوبارا اپنے ساتھ واپس لیکر گئے۔عدالت نے لاپتا شہری محمد علی کی گمشدگی کے مقدمہ درج کرنے کا بھی حکم دیدیا۔ عدالت نے سماعت 22 اپریل تک ملتوی کردی۔