سندھ ہائیکورٹ کا ایک مرتبہ پھر لاپتا افراد کے معاملے پر ٹاسک فورس کو ہر ماہ ملنے کا حکم

کراچی(رپورٹنگ آن لائن ) سندھ ہائیکورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکام کو لاپتا افراد کے ٹھکانے سے متعلق معلومات اکھٹا کرنے اور رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔

تفصیلات کے مطابق جب جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو کی سربراہی میں دو ججز کے بینچ نے لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے درخواستوں کا ایک سیٹ اٹھایا تو عمر زمان کے والدین، جنہیں 2014 میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے مبینہ طور پر حراست میں لیا، نے عرض کیا کہ ان کے بیٹے کی گمشدگی کے بعد سے اس کا کوئی سراغ نہیں ملا ہے۔ بینچ نے مشاہدہ کیا کہ لاپتا افراد کے حوالے سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) اور صوبائی ٹاسک فورس (پی ٹی ایف)کے متعدد سیشن ہوئے ہیں تاہم اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا اور درخواست گزار مایوس نظر آئے۔

بینچ نے کیس کے تفتیشی افسر کی طرف سے درج رپورٹ پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا اور انسپکٹر جنرل پولیس کو معاملے کی تحقیقات متعلقہ ایس ایس پی (انوسٹی گیشن) کو تفویض کرنے کی ہدایت کی تاکہ لاپتا شخص کی بازیابی کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے۔

ایک اور درخواست گزار نے عرض کیا کہ ان کے بیٹے کامران کمال کو مبینہ طور پر سنہ 2016 میں شاہ لطیف ٹان سے رینجرز نے حراست میں لیا تھا تاہم نیم فوجی دستے کے وکیل نے اس الزام کی تردید کی۔ بینچ نے نوٹ کیا کہ اکتوبر کے بعد سے موجودہ معاملے میں پی ٹی ایف کا کوئی سیشن اس سے قبل ہر ماہ سیشن منعقد کرنے کے حکم جاری کیے جانے کے باوجود نہیں ہوا۔ کہا گیا اس کی تعمیل نہیں کی گئی ہے اور اس طرح چیف سیکریٹری سندھ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ہر ماہ پی ٹی ایف کے اجلاس کو یقینی بنائے ۔

بینچ نے سیکرٹری داخلہ کو لاپتا ہونے والے دونوں افراد کے ٹھکانے کے بارے میں خیبر پختونخوا کے جیلوں سے رپورٹیں اکٹھا کرنے اور 12 مارچ تک رپورٹ درج کرنے کا حکم دیا۔ بینچ نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے)سے کو یہ بھی ہدایت دی کہ وہ ان دونوں افراد کی سفری تاریخ اکٹھا کریں اور اگلی سماعت تک اس کے سامنے رکھیں۔

دریں اثنا اسی بینچ نے آئی جی پولیس کو 25 فروری کو ایک اور لاپتا شخص کے بارے میں رپورٹ کے ساتھ طلب کیا ہے۔ درخواست گزار محمد نواز نے عرض کیا کہ انہیں اپنے بھائی، محمد امین اور بھتیجے محمد الیاس کے ساتھ 2009 میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے پکڑ لیا تھا اور بعد میں انہیں ناجائز اسلحہ کیس میں پولیس کے حوالے کردیا گیا تھا۔ درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ انہیں ٹرائل کورٹ نے بری کردیا تاہم ان کے بھائی اور بھتیجے کی گرفتاری کے بعد سے ان کا پتہ نہیں چل سکا۔