کراچی(رپورٹنگ آن لائن)سندھ حکومت کی ترجمان اور پیپلزپارٹی کی رہنما سعدیہ جاوید نے واضح کیاہے کہ سندھ حکومت پربے جا تنقید کا جواب دینا ان کی ذمہ داری ہے، مگر جہاں غلطی ہو، وہ اسے تسلیم بھی کرتی ہیں۔
خصوصی گفتگوکرتے ہوئے سعدیہ جاوید نے بتایا کہ سیاست میں آنے کی بنیادی وجہ ان کی والدہ تھیں، جو خود بھی سیاست سے وابستہ رہیں۔ انہوں نے کہا کہ اولاد اپنے والدین سے متاثر ہوتی ہے، اور میرا رجحان بھی والدہ کی وجہ سے سیاست کی طرف ہوا۔ اس کے علاوہ، میں ایک خاتون ہونے کے ناطے شہید محترمہ بینظیر بھٹو سے بہت متاثر تھی، جنہوں نے وہ بیریئرز توڑے جو پاکستان میں 80 کی دہائی میں شاید خواتین سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔
تو میری پہلی رہنما میری والدہ ہیں، اور ان کے بعد شہید بینظیر بھٹو خواتین کے لیے ایک مشعلِ راہ ہیں۔ایک سوال پرکہ کہا جاتا ہے کہ سندھ حکومت پر کوئی بھی تنقید کرے تو سعدیہ جاوید فوراً اس کا دفاع کرنے آ جاتی ہیں، چاہے وہ تنقید درست ہی کیوں نہ ہو۔ کیا واقعی ایسا ہے؟اس پر سعدیہ جاوید نے وضاحت دی، ایسا بالکل نہیں ہے۔ کراچی ایک بہت بڑا میٹروپولیٹن شہر ہے، اور اس کے مسائل بھی ہیں، جنہیں ہم انکار نہیں کر سکتے۔ وسائل محدود ہیں، مگر ہم بھرپور کوشش کرتے ہیں کہ عوام کو کم سے کم شکایات ہوں۔
البتہ، جب بیجا تنقید کی جاتی ہے، جیسے یہ بھی آپ کی وجہ سے ہوا یا یہ بھی آپ کی حکومت کی کوتاہی ہے تو اس کا جواب دینا میرا فرض بنتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ میری پارٹی اور قیادت نے مجھے ایک ذمہ داری سونپی ہے، اور میں اپنا موقف پیش کرتی ہوں۔ تاہم، جہاں غلطی یا کوتاہی ہو، میں اسے ایڈمٹ بھی کرتی ہوں۔
یہ کہنا مناسب نہیں کہ سندھ حکومت کے نمائندے اپنی خامیوں کو تسلیم نہیں کرتے۔سعدیہ جاوید نے حقائق کا احاطہ کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کی آبادی سرکاری اعداد و شمار میں ڈھائی سے تین کروڑ بتائی جاتی ہے، مگر حقیقت میں اگر ہیڈ کائونٹ کیا جائے تو یہ چار کروڑ سے بھی تجاوز کر سکتی ہے۔ ایسے میں، دنیا کے دیگر بڑے شہروں کی طرح کراچی کو بھی درپیش چیلنجز کا سامنا ہے، اور وسائل کی کمی کے باوجود مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔
ترجمان سندھ حکومت سے سوال کیاگیا کہ ہر سال رمضان میں قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آتا ہے، ڈی سی صاحبان کی جانب سے چھاپے بھی مارے جارہے ہیں، مگر یہ مسئلہ حل کیوں نہیں ہوتا؟سعدیہ جاوید نے اس پر تسلیم کیا کہ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے، جو صرف سندھ نہیں بلکہ پورے پاکستان میں پایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا، دنیا بھر میں جب کسی قوم کے مذہبی تہوار آتے ہیں تو اشیا کی قیمتیں کم کر دی جاتی ہیں، ڈسکائونٹ اور سیل لگا دی جاتی ہیں تاکہ عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولت ملے۔
مگر بدقسمتی سے پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ رمضان سے پہلے ہی ذخیرہ اندوز مارکیٹ سے اشیا غائب کر دیتے ہیں، اور پھر مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ سندھ حکومت اس مرتبہ زیادہ سختی کر رہی ہے اور قیمتوں پر کنٹرول کی کوشش جاری ہے۔
ان کے بقول، میں یہ نہیں کہوں گی کہ پورے شہر میں 100 فیصد کنٹرول ہو چکا ہے، لیکن بڑے بازاروں میں سبزی اور پھلوں کی قیمتوں پر قابو پایا گیا ہے، اور اس سال سبزیوں اور پھلوں میں مہنگائی نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ کہ روزانہ کی بنیاد پرمانیٹرنگ ہو رہی ہے اورکمشنر صاحب روزانہ ڈی سیز اور اے سیز سے رپورٹ لیتے ہیں، وزٹ کیے جا رہے ہیں، جہاں ضرورت پیش آتی ہے وہاں چھاپے بھی مارے جارہے ہیں اور خلاف ورزی کرنے والی دکانوں کو سیل بھی کیا جا رہا ہے۔