ریاض ( رپورٹنگ آن لائن)سعودی عرب نے بین الاقوامی میری ٹائم آرگنائزیشن کے کونسل الیکشن میں 142 ووٹ حاصل کرکے 20262027 کے لیے رکنیت حاصل کر لی ہے جبکہ مصر 132 ووٹ کے ساتھ کامیاب رہا۔
دیگر عرب ممالک نے بھی کونسل میں نشستیں حاصل کیں۔ اس کامیابی نے دونوں ملکوں کے عالمی بحری فیصلوں پر اثر و رسوخ اور ممکنہ فوائد سے متعلق سوالات کو نمایاں کر دیا ہے۔سعودی مصری بزنس کونسل کے سربراہ بندر بن محمد العامری نے کو بتایا کہ سعودی عرب کی کامیابی ایک بڑا قومی سنگِ میل ہے جو قیادت کی جانب سے ٹرانسپورٹ سیکٹر کو ملنے والی بھرپور معاونت کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ انتخاب سعودی عرب کے عالمی بحری کردار کو مضبوط بناتا ہے، کیونکہ مملکت براعظموں کے درمیان تجارت کے اہم مرکز کی حیثیت رکھتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ سعودی عرب کے پاس 10 بڑی تجارتی بندرگاہیں ہیں، جن میں 290 سے زائد برتھ اور سالانہ 1.1 ارب ٹن سے زیادہ کارگو کی مجموعی صلاحیت موجود ہے، جو وژن 2030 کے اہداف کے مطابق ہے۔ مملکت اس وقت اسمارٹ پورٹس، انسانی وسائل کی تربیت اور بحری ماحول کے تحفظ پر بھرپور کام کر رہی ہے۔ ان کے مطابق سعودی عرب اور مصر کا ایک ساتھ انتخاب دونوں ممالک کے سیاسی، اقتصادی اور بحری تعاون کو مزید مضبوط کرتا ہے، جو عرب دنیا کے لیے بڑا فائدہ ہے۔
مصر کے سابق چیف آف میری ٹائم ٹرانسپورٹ رضا اسماعیل کے مطابق سعودی عرب کی کامیابی کی تین بڑی وجوہات ہیں : مملکت کا بحیرہ احمر اور خلیج عرب کی طویل ساحلی پٹی کے باعث عالمی بحری نقل و حمل میں اہم کردار ،عالمی تجارت میں بحری شعبے کی فیصلہ کن حیثیت جو دنیا کی 85 تجارت کو سنبھالتی ہے اور سعودی عرب کے پاس اس شعبے کی تمام بنیادی صلاحیتیں موجود ہیں، جیسے جدید بندرگاہیں، لوجسٹکس، شپنگ کمپنیاں اور مضبوط انتظامی ڈھانچہ ۔بین الاقوامی میری ٹائم آرگنائزیشن کی کونسل میں شمولیت عالمی بحری پالیسی سازی میں براہِ راست اثر و رسوخ فراہم کرتی ہے، خصوصا ماحولیات، بحری تحفظ اور نیویگیشن کے اہم معاملات پر۔بحری امور اور یاٹ ٹورزم کے ماہر کیپٹن محمد نجیب نے کہا کہ سعودی عرب اور مصر کی کامیابی ان کی صلاحیتوں کا ثبوت ہے۔
ان کے مطابق دونوں ممالک اب عالمی بحری فیصلوں میں زیادہ مثر کردار ادا کریں گے اور عالمی شپنگ روٹس، بندرگاہی نظام اور نیویگیشن قوانین کے حوالے سے فیصلہ سازی پر مشترکہ اثر ڈال سکیں گے۔ اس سے نہ صرف بین الاقوامی بحری شعبے کو فائدہ ہوگا بلکہ عرب دنیا کو بھی نمایاں سفارتی اور اقتصادی تقویت ملے گی۔یہ کامیابی دونوں ممالک کے لیے عالمی سطح پر بحری پالیسی سازی میں زیادہ فعال اور مضبوط کردار کا آغاز سمجھی جا رہی ہے۔









