سرحدی علاقوں

سرحدی علاقوں میں داعش کیخلاف طالبان کی کم شدت کی جنگ جاری

کابل(ر پورٹنگ آن لائن)نوے کی دہائی کے برعکس طالبان کے لیے موجودہ افغانستان میں کوئی سیاسی اپوزیشن نظر نہیں آتی لیکن عسکری محاذ پر انہیں داعش کے خطرے کا سامنا ہے۔سرحدی علاقوں میں اس عسکری شدت پسند تنظیم کے خلاف طالبان کی کم شدت کی جنگ جاری ہے۔میڈیارپورس کے مطابق طالبان جنگجوں کی جانب سے انہیں ٹھکانے لگانے اور گرفتار کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے لیکن یہ کریک ڈائون علی الاعلان نہیں کیا جارہا، طالبان حکومت نہیں چاہتی کہ نئے اقتدار پر داخلی خطرات کا گہن لگے۔ننگر ہار کے راستوں پر جگہ جگہ طالبان کے ناکے ہیں جو گاڑیوں کی تلاشی لیتے ہیں، پاک افغان بارڈر طورخم سے قریب مہمند درا نامی ڈسٹرکٹ میں 2018 کے خودکش دھماکے میں جاں بحق مقامیوں کی قبریں بھی موجود ہیں۔

ایک مقامی شخص نے بتایا کہ یہ لوگ اس وقت کی حکومت کے خلاف احتجاج کررہے تھے کہ ان کے بیچ موجود خودکش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا، دھماکے میں پینسٹھ سے زائد لوگ شہید ہوئے۔ یہاں گاں میں اب بھی اس دھماکے کے متاثرین معذوری کی شکل میں موجود ہیں۔رابطہ کرنے پر طالبان حکومت نے داعش خراسان کے معاملے پر موقف دینے سے اجتناب کیا ۔باوثوق ذرائع یہ دعوی کرتے ہیں کہ داعش کے سلیپر سیلز قصبوں، دیہاتوں اور شہروں میں موجود ہوسکتے ہیں۔ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ طالبان کی جانب سے القاعدہ، ٹی ٹی پی اور دیگر عسکری جماعتوں سے تو افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ کرنے پر بات چیت ہوئی ہے لیکن داعش کے ساتھ ایسا کوئی رابطہ نہیں ہو پایا ہے۔