بشارالاسد

سابق شامی صدر بشار الاسد کے فرار کی مزید تفصیل آ گئی

پیرس (رپورٹنگ آن لائن ) بشار الاسد کے فرار ہونے کی مکمل کہانی بھی سامنے آئی ہے جس سے معلوم ہوا ہے کہ مسلح دھڑوں کے ملٹری آپریشنز کے کمانڈر احمد الشرع نے کیسے مہینوں پہلے دارالحکومت میں داخل ہونے اور حکومت کا تختہ الٹنے کا منصوبہ تیار کیا تھا۔عرب ٹی وی کے مطابق بشار الاسد کے فرار ہونے سے ایک دن پہلے ہفتے کی سہ پہر بشار الاسد کو وزیر خارجہ بسام صباغ اور مشیر بثنیہ شعبان، سٹوڈنٹ یونین کے صدر دارین سلیمان اور ایوان صدر کی ڈپٹی سیکرٹری جنرل لینا کینایہ نے فون کیے تھے۔ فون پر بات چیت کے دوران بشار الاسد نے ان سب کو یقین دلایا تھا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، روسی حمایت آ رہی ہے۔ ہم لڑیں گے اور شہروں پر قبضہ کرلیں گے۔

اطلاعات میں بتایا گیا کہ بشار الاسد نے ہفتے کی شام اصولی طور پر جنگی تقریر کرنے اور استعفی یا عہدہ چھوڑنے نہ چھوڑنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ اس کے لیے تمام تیاریاں کی گئی تھیں۔ فوٹوگرافرز نے جگہ تیار کر لی تھی روسی چینل رشیا ٹوڈے نے براہ راست تقریر نشر کرنے کے لیے منتقلی کا سگنل تیار کرلیا تھا۔ان کے مشیروں نے انہیں حاضر ہونے کا کہا تو تو ان میں سے ایک نے پوچھا حمص اور دمشق میں کیا ہو رہا ہے؟ جواب میں بشارالاسد نے کہا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے روسی حمایت آرہی ہے۔ اب تقریر کرنے کی جلدی نہیں ہے۔

کل ساڑھے 9 بجے تقریر کروں گا۔ کچھ عہدیدار فرار کی رات کو آدھی رات کے بعد تک اپنے دفاتر میں موجود رہے۔ بشار الاسد سے رابطہ کرنے والوں میں سے ایک نے بتایا ہے کہ بشار الاسد نے ہمیں یقین دلایا تھا کہ ہم جنگ کرنے جا رہے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا۔معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ بشار الاسد نے دارین سلیمان کے ساتھ اتوار کی صبح ناشتہ کرنے اور شعبان کے ساتھ ایک تقریر کا مسودہ تیار کرنے اور آٹھ دسمبر کو دوپہر بارہ بجے سیاسی کمیٹی کے سامنے پیش کرنے پر اتفاق کیا۔ پھر مسودہ ان کے سامنے پیش کیا گیا کہ وہ دوپہر کو تقریر کر سکیں۔ لیکن ہفتے کی شام آٹھ بجے ایک اہم روسی کال موصول ہونے کے بعد بشار الاسد اپنے دفتر سے نکل گئے۔ اس کال میں انہیں مزید خونریزی سے بچنے اور روسی مفادات کے تحفظ کے لیے دمشق چھوڑنے کا کہا گیا تھا۔جہاں تک بشار کے مشیروں کا تعلق تھا وہ سو گئے۔ ان میں ریپبلکن گارڈ میں جلوس کے کمانڈر میجر جنرل فائز جمعہ بھی شامل تھے۔ اس کے بعد ان کے رشتہ داروں اور معاونین نے ان مشیروں کو بڑی حیرت سے جگایا کہ میڈیا کی طرف سے آرہا تھا کہ بشار الاسد فرار ہوگیا ہے۔ بشار نے اپنے ساتھ رہنے کے لیے صرف دو لوگوں کا انتخاب کیا جن میں سے ایک صدارتی امور کے وزیر منصور عزام تھے اور دوسرے حفاظتی اہلکار بریگیڈیئر جنرل محسن محمد تھے۔ وہ سب حمیمیم بیس کی طرف روانہ ہوئے ۔ وہاں سے اسد ماسکو کے لیے پرواز کر گئے۔بشار الاسد کی اہلیہ اسما نے بیرون ملک ہونے والی کانفرنس سے جلدی میں واپس آنے کے لیے اپنے ایک معاون کو ایک اہم میٹنگ کے لیے بلایا تھا۔ تاہم جب اسما دمشق کے ہوائی اڈے پر پہنچی تو اس پر مسلح گروپوں نیقبضہ کرلیا تھا۔ یہ دیکھ کر اسما نے روتے ہوئے کہا کہ میں اپنی حالت پر رونا آ رہا ہے۔ انہوں نے ہمیں گمراہ کیا اور دھوکہ دیا ہے۔بعد میں جب بشار الاسد کے جانے کی خبر سامنے آئی تو ان کے مشیر بھی جاگ گئے اور لبنان یا شام کے ساحل اور پھر مغربی ممالک کی طرف بھاگ گئے۔

دریں اثنا کہ فورتھ ڈویژن کے ہیڈ کوارٹر میں وہ لوگ موجود تھے جو اب بھی لڑنا چاہتے تھے۔ چنانچہ ماھر الاسد، جو اس ڈویژن کے سربراہ ہیں، کے دفتر میں دفتر کے ڈائریکٹر اور فوجی کمانڈرکی اندرونی لڑائی چھڑ گئی۔ ان میں سے ایک گولی لگنے سے اور دوسرا بم سے مارا گیا۔ پھر ماھر ریف قوتلی اور عراقی ملیشیا کے رہنماں کے ساتھ عراق فرار ہوگیا۔جہاں تک فورتھ ڈویژن کا تعلق ہے تہ یہ ڈویژن دمشق میں لڑنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ یہ ڈویژن بھی چند گھنٹوں میں بخارات بن کر غائب ہو گیا۔ اس کے ارکان ساحل کی طرف بھاگ گئے۔

واپسی کا حتمی حکم اتوار کی صبح تین بجے ریپبلکن گارڈ کے ارکان کے لیے اس وقت آیا جب یہ خبر سامنے آئی کہ بشار الاسد اپنے ساتھی افسران یا سپیشل ٹاسک آفس کے سربراہ یعنی میجر جنرل فائز جمعہ کو بتائے بغیر فرار ہو گئے ہیں۔اس وقت تک محل کے سیکٹرز میں گارڈز اپنی ذمہ داریاں پوری حد تک نبھا رہے تھے اور گاڑیوں کی اچھی طرح تلاشی لے رہے تھے۔ آٹھ دسمبر سے حکومت کے خاتمے اور بشار الاسد کی ماسکو روانگی کے فورا بعد سے شام خطے اور دنیا میں اپنے سیاسی واقعات کی بنا پر سب سے نمایاں ہے۔