حجرہ شاہ مقیم (رپورٹنگ آن لائن)مرکزی نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ کسان روڑ کارواں اس بات کا اعلان ہے کہ کسان اب اس ظلم کے نظام کوبرداشت نہیںکر سکتا،کاشت کار کیلئے پوری محنت کے باوجود اپنی زندگی کا پہیہ چلانا ناممکن ہو گیا ہے اور کسان اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں.
حکومتیں ذراعت کے متعلق ناکام پالیسیاں بناتی ہیںجو ذراعت کی ترقی کا ذریعہ نہیں بنتی، آج دنیا میں فی ایکڑ پیداوار کہیں سے کہیں پہنچ گئی ہے لیکن پاکستان میں زراعت کا شعبہ لاوارث ہے کہیںنتیجہ خیز ریسرچ نہیں ہو رہیں ، کسان کوکوئی سہارہ ہے نہ کوئی مددگارہے ،کسان گندم، کپاس ،سبزیاں اور ہر چیز کاشت کرتا ہے لیکن ایسا نظام نہیں ہے کہ کسان کو اس کی محنت کا صلہ مل سکے جس کی وجہ سے آج پاکستان ایک بڑے غذائی بحران سے دوچار ہے،ان خیالات کا اظہار انہوں نے حجرہ شاہ مقیم میں جماعت اسلامی کے تین روزہ کسان روڈ کارواں کے پہلے اختتامی اجتماع کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا ،اس موقع پر صوبائی امیر محمد جاوید قصوری ، حلقہ کے امیر ڈاکٹر محمد رفیق، حجرہ شاہ مقیم کے امیر ڈاکٹر غلام نبی ناصر ودیگر بھی موجود تھے .
اپنے خطاب میں لیاقت بلوچ نے کہا کہ آ ئی ایم ایف کے حکم پر گندم کے کاشت کار کوپہلا ٹارگٹ بنا کرمافیا کو طاقت وربنایا گیا،انکی سرپرستی کرتے ہوئے گندم کی قیمت طے کر کے واپس لے لی اور مافیا کو اجازت دی کہ تم ایکسپورٹ کر لو امپورٹ کر لو،اس سلسلے میں بنائی گئی کمیٹی اور جے آئی ٹی کی تحقیقات سامنے نہیں آئیں ،ہے اس لیے آج یہ کانفرنس، یہ کارواں، یہ کسان کنونشن اسی بات کا مطالبہ کر رہا ہے کہ حکمرانوں ہوش کے ناخن لو غلام ذہن ماہرین کے ذریعے ملک کی معیشت کو تباہ نہ کرو اور کسانوں محنت کش ہاریوں کی آواز کو سنو جب تک پیداواری لاگت کم نہیں ہوتی معیشت ٹھیک نہیں ہوسکتی، اس کیلئے کھاد سستی ہو ادویات معیاری ہوںبیج اعلیٰ ہو،ملکی ذراعت کو میکنزم کے ذریعے ترقی دینے کے لیے جب تک حکمت عملی نہیں بنتی پاکستان کی معیشت بحر انوں سے نجات نہیں پا سکتی.
لیاقت بلوچ نے کہا کہ حالیہ سیلاب میں بھارتی آبی دہشت گردی کی وجہ سے سب سے بڑا نقصان فصلات کا ہوا ہے لیکن حکمران دعوے کر رہے ہیںمگر حقیقت میں کسان کی مدد نہیں ہو رہی جبکہ پیپلز پارٹی چاہتی ہے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے کسان کو مدد ہو ،وہ بھی فراڈ ہے۔ مریم نواز صاحبہ کسان کارڈ اور مریم کارڈ کے ذریعے کسانوں کو ریلیف دینا چاہتی ہیں لیکن یہ کسان کارڈ یہ کوئی احسان نہیں ہے یہ قرض کارڈ ہے جو لوگوں کا خون نچوڑیں گے ، اس لیے یہ پالیسیاں ناکام ثابت ہوئیں.
میں حکمرانوں سے کہنا چاہتا ہوں آئی ایم ایف کی پیروی کو چھوڑو، ورلڈ بینک کی غلامی سے نکلو اور پاکستان کے عوام، پاکستان کے کسانوں پر اعتماد کر کے پاکستان کی معیشت کو قرضوں اورسود کی لعنت سے نکالنے کے لیے ذراعت کو مستحکم کرنا ہوگا ، اگر حکمران کسانوں کو کھاد ،بیچ ،ادویات میں سبسڈی نہیں دے سکتے تو وہ کسان کی گندم کو چار ہزار 500 روپے پہ کیوں نہیں خریدتے، سستی روٹی پر کسانوں کو کوئی اعتراض نہیں لیکن گندم کے کاشتکار مڈل مین اورد ولت بنانے والوں کے حوالے کر کے ملکی ریڑھ کی ہڈی پر کاری ضرب لگائی جا رہی ہے ،یہی وجہ ہے کہ ملک میں کپاس ہونے کے باوجود باہر سے منگا رہے ہیںجس سے پاکستان کے عوام کے لیے کپڑا بھی مہنگا کفن بھی مہنگا ہے ۔